بات تو سچ ہے سراج الحق کی لیکن ۔۔؟

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا یہ کہنا بجا طور پر درست ہے کہ انتخابات پی ڈی ایم و اتحادی جماعتوں اور تحریک انصاف کا مسئلہ نہیں، جمہوریت کا تقاضا ہیں اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔90دن میں الیکشن کے دستوری تقاضے بتانے اور اس پر اصرار کرنے والے بھی یہ جانتے ہیں کہ90دن کی بجائے 105 دن پر بات چلی گئی قومی اتفاق رائے کے لئے بات 205دن پر بھی جائے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ سراج الحق نے یہ بھی کہا کہ بدقسمتی سے ملک میں دلیل کی جگہ گالی نے لے لی ہے نفرتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ محض سیاسی تعلق سے پیدا ہوئی نفرت کی بنا پر لوگ ایک دوسرے کی غمی خوشی میں شریک نہیں ہوتے اس صورتحال کے ذمہ داروں نے مثبت رویہ نہ اپنایا تو ملک کو خانہ جنگی سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔ امیر جماعت اسلامی نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ملک میں شفاف انتخابات کے لئے اسٹیبلشمنٹ، سپریم کورٹ اور ا لیکشن کمیشن کو غیرجانبدارانہ انداز میں اپنے فرائض ادا کرنا ہوں گے۔ اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہونے کا اعلان کرچکی لیکن اسے عملی طور پر اس کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ سپریم کورٹ کو بھی یہ تاثر دور کرنا ہوگا کہ اس کے مخصوص بنچ کسی سیاسی جماعت کے لئے سہولت کاری پر مبنی فیصلے دیتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے سیاسی طرزعمل اور ماضی کا طویل عرصہ اسٹیبلشمنٹ کے سرگرم و پرجوش اتحادی کے طور پر گزارنے کے معاملات کو مدنظر رکھ کر اگر امیر جماعت اسلامی کے حالیہ خیالات پر غور کیا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی و غیرسیاسی معرکوں اور توسیع پسندانہ عزائم میں پرجوش ساجھے دار رہنے والے بھی آج اس امر کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ سیاسی عمل اور نظام کے معاملات سیاسی جماعتوں اور پارلیمان کے ہیں پارلیمان اور سیاسی جماعتوں کے معاملات میں دخل اندازی یا مخصوص مقاصد کے لئے انہیں خاص سمت ہانکنے سے ماضی میں بھی خرابیاں پیدا ہوئیں اور اب بھی اگر سوچ، طرزعمل میں تبدیل نہ لائی گئی تو آب زم زم کے چشمے نہیں پھوٹیں گے بلکہ خرابیں ہی پیدا ہوں گی۔ ادھر پنجاب اسمبلی کے14مئی کے انتخابات کے حوالے سے عدالتی فیصلے پر سپریم کورٹ کے نوٹس پر پیش ہونے والی سیاسی قیادت سے مخاطب ہوکر بنچ کے ایک رکن جسٹس منیب اختر کاکہنا تھا کہ پولنگ کی تاریخ صرف عدالت آگے بڑھاسکتی ہے۔ پنجاب میں انتخابی عمل کے حوالے سے عدالتی فیصلے اور بار بار بعض امور پر عدالتی اختیارات کا تذکرہ کرتے ہوئے جج صاحبان جو ریمارکس دے رہے ہیں ان میں سے بعض کی قانونی اور آئینی حیثیت پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ انتخابی شیڈول کے مکمل و جزوی التوا یا مقررہ وقت پر مکمل کرانے کا اختیار آئین کے تحت الیکشن کمیشن کے پاس ہے حیران کن بات یہ ہے کہ ایک ایسے فیصلے پر جو خود سپریم کورٹ کے اکثر ججوں کے نزدیک ہی غلط ہے اس پر الیکشن کیس کی سماعت کرنے والے جج صاحبان اپنے ریمارکس میں یہ تاثر کیوں د یتے ہیں ان کا کہا حرف آخر ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ د رمیان کا راستہ تلاش کرنے کی زحمت کیوں کی جارہی ہے۔ اس سے تو پھر یہ شکایت پیدا ہوگی کہ سپریم کورٹ قانون کی تشریح کی بجائے قانون سازی کی خواہش مند ہے جیسا کہ آرٹیکل 63اے کے معاملے میں ہوا اس لئے یہ عرض کرنا ازبس ضروری ہے کہ جو کام سیاسی جماعتوں اور پارلیمان یا الیکشن کمیشن نے کرنے ہیں وہ انہی پر چھوڑ دیئے جائیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی سیاسی انتظامی اور عدالتی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ یہاں کوئی فریق اور محکمہ و ادارہ اپنے فرائض ادا کرنے سے زیادہ دوسرے ادارے کے اختیارات سنبھال کر احکامات دینے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتا بلکہ اس کا عملی مظاہرہ بھی کرتا ہے۔ حالیہ عدالتی بحران جس کے سیاسی عدم استحکام پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے بھی ایک ایسے اقدام سے شروع ہوا جو کہ صاف سیدھا تجاوز کے زمرے میں آتا ہے۔ سپریم کورٹ میں پیشی کے بعد امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جن خیالات اور خدشات کا اظہار کیا ان پر دو آرا ممکن ہی نہیں۔ تلخ ترین حقیقت یہی ہے کہ ریاستی محکمے اور ادارے دستوری فرائض ادا کرنے کی بجائے سیاسی عمل میں پسندیدہ سیاسی جماعت کے لئے سہولت کاری کرتے آئے ہیں۔ ماضی میں تو پورا انتخابی نظام پسندیدہ سیاسی جماعتوں کی گود میں ڈال کر انہیں اقتدار میں لایا جاتا رہا ہے۔ محکموں اور اداروں کے کاندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں آنے والوں نے سیاسی اخلاقیات اور سماجی روایات کا دھوم دھام کے ساتھ جنازہ اٹھوایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں دلیل کی جگہ گالی پسندیدہ ہتھیار ہے۔ نفرتوں کے اس بڑھاوے میں اسٹیبلشمنٹ کا جو کردار رہا اس کی لیپاپوتی ممکن نہیں۔ جھوٹی داستانیں زبان زد عام کرانے میں ماضی میں ایجنسیوں نے جو کارنامے سرانجام دیئے یہ اس کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستانی سماج دو انتہائوں میں بٹا ہوا ہے۔ گو اب اسٹیبلشمنٹ اس امر کی دعویدار ہے کہ اس کا سیاسی عمل اور نظام حکومت سے لینا دینا نہیں سیاسی جماعتیں اپنے معاملات خود سنبھالیں چلائیں مگر بالادستی اور کلی حاکمیت کے شوق میں جو خلیجیں پیدا کی گئیں انہیں کم کرنے میں وقت لگے گا۔ سراج الحق کا یہ انتباہ درست ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں اور بالخصوص گالی کی سیاست کرنے والوں نے ہوش سے کام نہ لیا تو ملک میں خانہ جنگی کادروازہ کھل جائے گا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ انتخابات حکمران اتحاد اور پی ٹی آئی کا مسئلہ ہی نہیں یہ جمہوریت اور سیاسی عمل کو پرامن طور پر آگے بڑھانے کی بنیادی ضرورت ہیں لیکن یہ امر بھی قابل غور ہے کہ قومی اسمبلی کی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے خلاف حکم امتناعی دینے والی عدالتیں پنجاب اسمبلی کے الیکشن کروانے کے لئے پرجوش دکھائی دیتی ہیں۔ بہرطور جو ہوا سو ہوا اب بھی وقت ہے کہ فرد، سیاسی جماعتیں، محکمے اور ادارے ملک کے آئین اور قانون کی پاسداری کو بہرصورت یقینی بنائیں بالخصوص اسٹیبلشمنٹ، اعلی عدالتیں اور الیکشن کمیشن کو بطور خاص یہ بات مدنظر رکھنا ہوگی کہ اگر شفاف انتخابات نہ ہوئے تو اس کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں۔ پچھلے ایک برس سے ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام نے جو بگاڑ پیدا کئے وہ کسی سے مخفی نہیں بگاڑ کے ذمہ داروں سے عوام بخوبی واقف ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دلیل کی جگہ گالی دینے اور ہر معاملے میں میں نہ مانوں کا راگ الاپنے والے کردار بھی اپنے طرزعمل پر نظرثانی کریں۔ کسی ادارے اور محکمے کو بھی یہ تاثر ہرگز نہیں دینا چاہیے کہ اس کی پسند فلاں ہے اور ناپسند فلاں۔ اپنی سیاسی قیادت منتخب کرنے کا حق رائے دہندگان کو حاصل ہے یہ حق انہیں آئین دیتا ہے۔ یہ امر یقینا باعث مسرت ہوگا کہ سیاسی عدم استحکام اور بعض افراد کے غیرذمہ داران طرزعمل سے جو خرابیاں پیدا ہوئی ہیں انہیں دور کرنے اور سیاسی استحکام کی طرف بڑھنے کے لئے تمام سیاسی جماعتیں اپنا اپنا کردار ادا کریں گی۔ سیاسی عمل میں شریک تمام سیاسی جماعتوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دھونس گالی اور ہٹ دھرمی کی سیاست کا میلہ چند روزہ ہی ہوتا ہے اس کے فائدے کم اور نقصانات زیادہ ہیں اس لئے مناسب ترین یہی عمل ہوگا کہ سیاسی رواداری، سماجی اخلاقیات اور جمہوری اقدار کو پروان چڑھایا جائے تاکہ ملک اور نظام دونوں کے لئے ایسے مسائل پیدا نہ ہوں جو حل نہ ہوسکیں۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں