بال ایک دوسرے کے کورٹ میں

ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے ہیں کہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ معاملہ سیاسی عمل پر چھوڑا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی معاملات کو سیاسی قیادت حل کرے لیکن موجودہ درخواست ایک حل پر پہنچے گی۔ عدالت میں ایشو آئینی ہے سیاسی نہیں، سیاسی معاملہ عدالت سیاسی جماعتوں پر چھوڑتی ہے۔ مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کے فیصلے کو لے کر بیٹھی نہیں رہے گی۔سپریم کورٹ انتخابات کے حوالے سے سیاسی فریقوں کو اتفاق رائے سے کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے موقع دیتی آئی ہے اور عدالت کی جانب سے ابتداء میں کچھ تعجیل کے بعد سیاسی مذاکرات سے مسائل کا حل تلاش کرنے کی منتظر ہے لیکن سیاستدان کسی حتمی نتیجے پر تو نہیں پہنچے البتہ ایک ساتھ انتخابات پر اتفاق رائے ہوا ہے جو خوش آئند امر ہے ۔ عدالتی ریمارکس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ سپریم کورٹ سیاسی مذاکرات میں پیش رفت سے اگر پوری طرح مطمئن نہیں تو بھی وہ سیاستدانوں کو موقع دے رہی ہے لیکن بہرحال اس مہلت میں اب دس دن سے بھی کم کا عرصہ رہ گیا ہے اس کے بعد عدالتی حکم کے لاگو کرنے کاعندیہ ہے لیکن اس پر عملدرآمد کے حوالے سے ہنوز لوازمات پر بھی کام شروع نہیں ہوا احتیاجات اور ضروریات کو پورا کرکے انتظامات کو حتمی شکل دینے میں جتنا وقت درکار ہے اگر ہنگامی بنیادوں پر بھی کام کیا جائے تب بھی ایسا ممکن نظر نہیں آتا یہ سارا عمل یقینا عدالت کے روبرو ہے اور عندیہ بھی دیا گیا ہے کہ اس حوالے سے عدالت بہرحال اپنے فیصلے پر عملدرآمدکی منتظر ہے اب مقررہ تاریخ پر صورتحال کیا بنتی ہے اس حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے البتہ اتنا بہرحال واضح ہے کہ حکومت عملدرآمد سے واضح طور پر انکاری ہے ایسے میں کسی درمیانی راہ کا ہی موقع تلاش ہو سکتا ہے جوان دنوںمیں تلاش کیا جانا ضروری ہے بصورت دیگر عدالت کی صوابدید ہو گی کہ وہ اس سلسلے میں کیا طرز عمل ا ختیار کرتی ہے مسئلہ حل نہ ہو تو کسی ایک جانب پیچیدگی اور معاملات کے بند گلی کے آخری کونے پر فیصلہ ہی کا موقع بچتا ہے جس سے گریز کی صورت اسی وقت ہی مل سکتی ہے جب سیاستدان باہمی معاملات طے کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ سیاسی معاملات کا عدالتوں میں نہ جانے کے حوالے سے تو اتفاق ہے مگر جاری صورتحال سے نکلنے کا راستہ تلا ش کرنے پر بھی اتفاق کے باوجودکوئی فارمولہ وضع نہ ہونا قول و فعل کے تضاد کا مظہر ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاستدان خود اپنے مسائل کا حل کس طرح نکالتے ہیں اس طرح کے معاملات کے حوالے بلاشبہ سیاستدانوں کے عدالت سے بھی شکوے شکایتیں ہیںجس کا اظہارعدالت میں ہوا بھی ہے۔وفاقی وزیرخواجہ سعدرفیق نے اعلیٰ عدلیہ کی طرف ہونے والی ناانصافی کی شکایت چیف جسٹس عمرعطاء بندیال سے بھری عدالت میں کردی۔ انتخابات کیس کی سماعت کے دوران روسٹرم پر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ وکیل نہیں ہوں اس لیے عدالت میں بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے، جو کہوں گا سچ کہوں گا، سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا،انہوں نے کہا کہ اداروں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان عدم اعتماد بہت گہرا ہے، 2017سے عدالت نے ہمارے ساتھ ناانصافی کی۔میں بھی ایک شکار آپ کے سامنے کھڑا ہوں،انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے ذریعے ہی سیاسی بحران کا حل نکالا جا سکتا ہے، آئین 90 دن کے ساتھ شفافیت کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ الیکشن نتائج تسلیم نہ کرنے پر پہلے بھی ملک ٹوٹ چکا،صرف ایک صوبے میں الیکشن ہوا تو تباہی لائے گا۔سعد رفیق نے بتایا کہ عدالت کو سیاسی معاملات میں الجھانے سے پیچیدگیاں ہوتی ہیں، اپنی مدت سے حکومت ایک گھنٹہ بھی زیادہ نہیں رہنا چاہتی، ملک کی قیمت پر الیکشن نہیں چاہتے۔عدالت میں چیف جسٹس کی جانب سے بھی کچھ اشارے ملے شکوہ اور جواب شکوہ کے اس موقع کو اس لئے مثبت قرار سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر دو جانب سے ایک دوسرے کے حوالے سے یعنی پارلیمان اور عدلیہ کے معاملات ہر جگہ زیر بحث ہیں اس طرح کا تعامل فریقین کے درمیان غلط فہمیوں کے ازالے کے لئے نیک شگون ہے ایک دوسرے کے خیالات شکایات اور موقف سے آگاہی سے حالات پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے لیکن بہرحال پر نالہ وہیں کا وہیں رہے اور سیاستدان کسی نتیجے پر نہ پہنچے تو پھر حالات کی ذمہ داری بھی انہی پر ہوگی ضروری نظر آتا ہے کہ اس ہفتے کوئی پیشرفت ہو تاکہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھ جائے اور معاملات ناقابل واپسی کی لکیر عبور نہ کر جائیں۔

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟