4 103

بجٹ ،معیشت اورملکی قیادت

بحیثیت قوم جو معاملات ہماری قومی کمزوریاں ہیں ان میں سے ایک ہماری معیشت کا غیر دستاویزی ہونا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں ایسے لوگ ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں جو ٹیکس حجم کو مناسب حد تک بڑھانے کا سبب بن سکتے ہیں’ دوسری طرف جو کاروباری افراد اور ادارے ٹیکس نیٹ میں موجود ہیں وہ بھی اپنے حصے کا ٹیکس پورا ادا نہیں کر رہے۔ اس نان ٹیکس کلچر کا پہلا نقصان خسارے کا بجٹ ہے ‘ دوسرا نقصان حکومت کو قرض لینا پڑتا ہے’ تیسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ حکومت آسان ذرائع سے ریونیو بڑھانے کے لیے اقدامات کرتی ہے جس کا بوجھ معاشرے کے کم آمدنی والے افراد پر پڑتا ہے اور یہیں سے ساری معیشت بگڑ جاتی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے معیشت کو دستاویزی بنانے کے لیے گذشتہ بجٹ میں بہت سے اقدامات اٹھائے لیکن تاجر طبقے نے حکومت سے تعاون نہیں کیا ۔ اس کے باوجود گذشتہ مالی سال کے پہلے 9ماہ میں ٹیکس کولیکشن ٹارگٹ کے مطابق رہی اور گذشتہ سال کی نسبت زیادہ ٹیکس اکٹھا ہوا۔ کورونا وباء کی معاشی تباہ کاری نہ ہوتی تو 2019-20کا سال کسی حد تک معاشی بحالی کا سال بن سکتا تھا۔ ایکسپورٹ بڑھی ہیں اوردرآمدات میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ مقامی طور پر زرعی شعبے کی کارکردگی میں اضافہ ہوا ہے۔ مقامی صنعت اور سروسز کے شعبوں میں بھی بہتری آتی تو معیشت کا حجم بہتر ہوتا لیکن کورونا کے اثرات ان شعبوں پر مرتب ہوئے اور یوں مجموعی طور پر معیشت سکڑ گئی ہے۔ حکومت کے متعدد اقدامات کے معیشت پر اچھے اثرات پڑے ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ ملکی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے جب تک جملہ ملکی قیادت سر جوڑکر نہیں بیٹھے گی یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہو گا۔ پاکستان کو ایک میثاق معیشت درکار ہے۔ ایک ایسا میثاق جس پر سب متفق ہوں اور اس پر کوئی سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہ کرے۔ عدالتیں بھی خواہ مخواہ کی مقدمہ بازی کی حوصلہ شکنی کریں ۔ اس میثاق معیشت کا حال میثاقِ جمہوریت والا نہیں ہونا چاہیے۔ تھیوری کے اعتبارسے جو ایک بہترین دستاویز قراردی جاسکتی ہے لیکن عملی طور پر جو کچھ جس طرح سرانجام پایا اس نے دوسیاسی جماعتوں کے درمیان ملی بھگت اور مک مکا کا تاثرقائم کیا۔ جہاں کچھ کرنے والا کام تھا وہ نہ کیا گیا ‘ نیب ختم نہ کیا گیا اور ٹرتھ اینڈ ری کنسلیشن کمیشن کا قیام عمل میں نہ لایا گیا۔ اتنی اخلاقی جرأت نہ دکھائی گئی کہ ماضی میں کیے گئے غلط کاموں کا اعتراف کیا جاتا اور قوم سے معافی مانگ کر آئندہ کے لیے ان کاموں سے توبہ تائب ہوا جاتا۔ یہ بھی ہمارے قومی مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے کہ ہم آنکھوںمیں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم دھوکہ دہی سے وقت گذارتے ہیں اور مکمل اصلاح احوال کے لیے تیار نہیںہوتے۔ ہمارے ملکی مسائل گمبھیر محض اس وجہ سے ہیں کہ ان کی اصلاح کے لیے ہم اجتماعی کوشش سے گریز کرتے ہیں۔ سیاستدان ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہتے ہیں’ بیوروکریسی اپنے مفادات کی اسیر ہے اور عدالتیں غیر ضروری مقدمات میں الجھی ہوئی ہے۔
اپنی ناکامیوں کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے کا رواج ہے ۔ اور یہ کام ہم کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں اور انجام کار ہم ہر گزرتے دن تباہی کی جانب بڑھتے جا رہے ہیں۔ اہل سیاست اپنی ذمہ داری سے آخر کیوں کر بچ سکتے ہیں۔
تو اِدھر اُدھر کی نہ بات کریہ بتا قافلہ کیوںلٹا
مجھے رہزنوںسے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
میرا گلہ ہمیشہ اہل سیاست سے رہا ہے اور میری یہ حتمی رائے ہے کہ وطن عزیز کو اگر معاشی اور معاشرتی لحاظ سے کوئی اوپر اُٹھا سکتا ہے تو وہ اہل سیاست ہی ہیں بشرطیکہ وہ اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کر ملکی ترقی کے لیے ایک ہوجائیں ۔ آج ہمارے مسائل 70کی دہائی سے زیدہ گمبھیر اور پیچیدہ ہیں۔ عمران خان کی صورت میں پاکستان کو ایک اچھی قیادت ملی ہے لیکن مسائل کی پیچیدگی اور انبار ایسا ہے کہ پرعزم کپتان کی شب و روز کی جدوجہد بھی بگڑی ہوئی لہر کا رُخ موڑنے میںابھی کامیاب نہیں ہوئی۔ اپوزیشن اس سے سخت نالاںہے کہ وہ احتساب کی راہ سے ہٹنے کو تیار نہیں ہے چنانچہ محض لفاظی کی حد اپویشن لیڈر میثاق معیشت کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے تو کوئی کاروباری مفادات نہیں ہیں لہٰذا اگر معیشت کو استوار کرنے کے لیے مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں تو وہ اس کی خاطر کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے اصل مسئلہ دیگر ملکی قیادت کی طرف سے ہے’ میاں شہباز شریف اگر اپنے کہے میں سنجیدہ اور مخلص ہیں تو وہ میثاق معیشت کا مکمل خاکہ پیش کریں اور اس پر قومی اتفاقِ رائے پید اکرنے کی کوششوں کا آغاز کریں لیکن وہ ایسا نہیں کریں گے۔ یہ لوگ اگر ان خطوط پر سوچتے تو طیب اردوان نہ بن جاتے ، ان سے کسی ایسے کام کی توقع نہیں جو قومی مسائل کا پائیدار حل تجویز کرے۔ کیا وہ اور کیا پیپلز پارٹی کی قیادت ‘ سب یک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں ‘ اگر یہ لوگ سنجیدہ اور مخلص ہوتے تو کیا پاکستان کا یہ حال ہوتا۔ ایک کے بعد دوسرے کا دور آتا رہا اور حفیظ جالندھری کی زبان میں اندھیرا بھی بڑھتا رہا اور بعد میں آنے والا پہلے سے بڑا لٹیرا ثابت ہوا۔
اب تو کچھ اور بھی اندھیرا ہے
یہ میری رات کا سویرا ہے
رہزنوں سے تو بھاگ نکلا تھا
اب تو مجھے رہبروں نے گھیرا ہے
قافلہ کس کی سربراہی میں چلے
کون سب سے بڑا لٹیرا ہے

مزید پڑھیں:  تمام تر مساعی کے باوجود لاینحل مسئلہ