Ahmad Bilal

بحث صدارتی حکم ناموں کی

اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان میں صدارتی حکم ناموں کی ذریعے قانون سازی کے معاملے پر بحث زور پکڑتی جا رہی ہے۔ اب نہ صرف پاکستان تحریک انصاف کو پچھلے اٹھائیس ماہ میں لا تعداد صدارتی حکم ناموں کے اجراء پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ سابقہ حکومتوں کی جانب سے بھی اس سہولت کو ناجائز طور پر استعمال کرنے کے بارے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے تازہ ترین پیش رفت اس وقت ہوئی جب یکم جنوری کو سینٹ میں حزب اختلاف کے قائد سینیٹر راجہ ظفرالحق کی قیادت میں چونتیس سینیٹ ممبران نے ایک تحریک پیش کی جس کا مقصد وفاقی حکومت کی جانب سے صدارتی حکم نامو ں کے ذریعے حکومت چلانے اور اس کے نتیجے میں آئین اور صوبوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی سنگین صورتحال پر بحث کرنا تھی۔ اس تحریک کہ جس میں صدارتی حکم ناموں کے متواتر استعمال کو آئینی اور صوبائی حقوق کی خلاف ورزی سے گردانا گیا تھا، میں حکومت اور وزارت قانون پر یہ زور دیا گیاکہ وہ اپنی اس روش کی وضاحت پیش کریں اور ثابت کریں کہ وہ یہ سب اپنی سینیٹ میں اقلیت ہونے کے سبب نہیں کر رہے۔ حکومت کے اب تک کے اقدامات سے یہی لگ رہا ہے کہ وہ ہر کام اکثریت کے بل بوتے پر کرنا چاہتی ہے اور وہ اسے ابھی سینٹ میں میسر نہیں ۔ یہ سوچ عالمی طور پر مروجہ جمہوری افکار اور طرز عمل کی صریح خلاف ورزی ہے کہ اس میں حکومت کو حزب اختلاف کے ساتھ سنجیدگی سے مل کر کام کرنے، معاملہ فہمی اور مفاہمت کرنے اور حزب اختلاف کی آراء کے مطابق قوانین میں از حد ممکن بہتری لانا شامل ہوتا ہے۔ یہ تحریک پیش کرنے والے سینٹ ممبران نے موقف اپنایا ہے کہ حکومت کی یہ روش وفاق کی سا لمیت کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ ہمارے ہاں کئی معاملات ایسے ہیں جس میں وفاق اور صوبوں کے مابین اختلافات یا آراء کا فرق پایا جاتا ہے۔ ان معاملات کو بھی صدارتی حکم نامے کی دھونس کے ذریعے حل کرنا سنگین غلطی ہے۔ ایسے ہی نازک معاملات میں سے ایک مثال وہ پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے بارے جاری کیا جانے والا صدارتی حکم نامہ تھا جس کے بعد وفاق اور سندھ میںخاصی چپقلش رہی تھی۔ یاد رہے کہ یہ حکم نامہ تیس دسمبر تک ختم ہونے کے بعد بھی اب تک پارلیمان سے منظور نہیں کرا یا جا سکا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے ہر معاملے کو قانونی مسودے کی صورت پارلیمان میں پیش کیا جائے،اس پر بحث ہو اور متعلقہ پارلیمانی کمیٹی میں گفتگو کے ذریعے اس پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور پھر پارلیمان سے منظور کرا لیا جائے۔صدارتی آرڈیننس نہ صرف ایک بدنام پارلیمانی اقدام ہوتا ہے بلکہ یہ ہم جیسی متنوع وفاقی اکائیوں کے لیے نہایت خطرنا ک بھی ہے۔ اس حوالے سے سینٹ کے حالیہ اجلاس میں اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے سینیٹر ولید اقبال نے ایک سال قبل دسمبر 2019میں ایک اخباری اداریے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت کی جانب سے جاری صدارتی حکم نامے اب بھی پیپلز پارٹی کی نسبت کافی کم ہیں۔ وہ صدارتی حکم ناموں کے اجراح پر تنقید کے جواب کی بجائے سابقہ حکومتوں کے مقابلے ان کی تعداد کے بارے اعداد و شمارکا مقابلہ کرنے میں زیادہ دلچسپی لے رہے تھے۔ صدارتی حکم ناموں کے بل بوتے پر حکومتوں کی کارکردگی پر سوال اپنی جگہ مگر سال 2019میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 89کو بھی چیلنج کیا گیا ہے جس کے تحت صدر مملکت آرڈیننس جاری کرتے ہیں۔ یہ کیس ایم این اے محسن رانجھا کی جانب سے دائر کیا گیا ہے۔صدارتی حکم ناموں کی ایسے متواتر اجراح اور ان کے ذریعے حکومت چلانے کے حوالے سے تحفظات اور ان پر بحث ہونا خوش آئند ہے۔ آئین کے اس آرٹیکل 89کا ناجائز استعمال اس لیے بھی بڑھ چکا ہے کہ ہمارے ہاں قانون منظور کرنے میں جلدی کرنے کا رواج نہیں اور اسے اگلے اجلاسوں تک ٹال دینا معمول ہے۔ آرڈیننس جاری کرنے کی اس سہولت کے سبب حز ب اختلاف کے ساتھ مشاورت نہ کرنے کی روایت بھی پختہ ہوتی جا رہی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہمارے ہاں صدارتی حکم ناموں کے اجراح ،ا ستعمال اور ضرورت کے حوالے سے جاری مکاملہ اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔ اب یا تو دیگر جمہوری ممالک کی طرح اس اختیار کو مکمل طور پر ختم کرنے کاراستہ موجود ہے یا پھر اس کے غلط اور متواتر استعمال کے حوالے سے توانا عوامی رائے عامہ ہموار کر کے اس کا ناجائز استعمال روک دینا چاہیے۔ (بشکریہ ڈان، ترجمہ: خزیمہ سلیمان)

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی