بحران بند گلی میں لیجارہے ہیں ؟

بہت احترام کے ساتھ یہ عرض کرنا ضروری ہوگیا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے جج صاحبان میں تقسیم ہر گزرنے والے لمحے کے ساتھ بہت واضح ہوتی جارہی ہے۔ لیپا پوتی، قوانین کی من پسند تشریح اور کسی بھی دوسرے طریقہ سے اس صورتحال کو چھپایا جاسکتا ہے نہ یہ کہہ کر تسلی دی جاسکتی ہے کہ یہ برادر ججز کا فہمی اختلاف ہے اس سے ملک کا نظام انصاف متاثر ہوگا نہ عدالتی وقار پر حرف آئے گا۔ ازخود نوٹس کیسوں کی سماعت نئے رولز بنائے جانے تک روک دینے کے گزشتہ روز جاری کئے جانے والے تین رکنی بنچ کے اکثریتی فیصلے کو سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے سرکلر کے ذریعے ناقابل عمل قرار دلوانے کے عمل نے سارے پردے ہٹادیئے ہیں۔ دوسری طرف پنجاب اور خیبر پختوانخوا کے انتخابات ملتوی کئے جانے کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست کی سماعت کرنے والا چار رکنی بنچ جمعہ کو اس وقت تحلیل ہوگیا جب بنچ کے ایک رکن جسٹس جمال مندوخیل نے آرڈر آف کورٹ لکھوائے جانے پر مشورہ نہ کئے جانے کو نادرست قرار دیتے ہوئے بنچ میں مزید بیٹھنے سے معذرت کرلی۔ اس سے قبل جمعرات کو جب چیف جسٹس کے تشکیل دیئے پانچ رکنی بنچ نے سماعت کا آغاز کیا تو ایک رکن جسٹس امین الدین خان یہ کہہ کر بنچ سے الگ ہوگئے کہ چونکہ وہ ازخود نوٹس کی سماعت روک دینے کا فیصلہ کرنے والے بنچ میں شامل تھے اس لئے وہ اس بنچ کا حصہ نہیں رہنا چاہتے۔ جمعرات کو ہی چیف جسٹس نے سماعت چار رکنی بنچ کے ساتھ جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ جمعہ کو جسٹس مندوخیل بنچ سے الگ ہوگئے۔ یوں24گھنٹے میں بنچ دوسری بار تحلیل ہوگیا۔ چیف جسٹس نے تین رکنی بنچ کے ساتھ کیس کی سماعت جاری رکھنے کا حکم جاری کردیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالحسن اور جسٹس منیر اختر پر مشتمل بنچ مزید سماعت جاری رکھے گا۔ عدالتی فیصلے سے الیکشن کمیشن کے انحراف پر شنوائی کے لئے تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ دو صوبوں کی اسمبلیوں کا الیکشن 90دن میں کرانے کا حکم تین دو کے تناسب سے دیا گیا تھا جسے ازخود نوٹس کی سماعت کے لئے چیف جسٹس نے ابتدا میں 9رکنی بنچ تشکیل دیا تھا اس کے دو ارکان جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی مختلف فریقوں اوربار کونسلوں کے اعتراضات پر بنچ سے الگ ہوگئے بعدازاں دو جج صاحبان جسٹس آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے ازخود نوٹس لئے جانے کو غیرضروری قرار دیتے ہوئے نہ صرف اسے مسترد کردیا بلکہ چند اہم آئینی سوالات کے ساتھ بنچ میں مزید شامل رہنے کو چیف جسٹس کی صوابدید پر چھوڑدیا۔ چیف جسٹس نے بعدازاں پانچ رکنی بنچ میں ازخود نوٹس کی سماعت کی اور فیصلہ سنایا مگر دو جج صاحبان کو بنچ سے الگ کرنے کا آرڈر آف کورٹ جاری نہ ہوا۔ اس نکتہ کو تین دو کے تناسب سے فیصلہ دینے والے بنچ کے ان دو ارکان نے اپنے اختلافی فیصلے کا حصہ بناتے ہوئے حکم دیا کہ ازخود نوٹس کو مسترد کرنے کا فیصلہ چار تین کے تناسب سے سمجھا جائے اور یہ کہ تمام ادارے اس کے پابند ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات نہ کرانے اور پنجاب میں دیا گیا انتخابی شیڈول منسوخ کرنے کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست قابل سماعت قرار پائی تو سماعت کے آغاز پر ہی عدالت کے سامنے یہ قانونی سوال رکھا گیا کہ ازخود نوٹس میں ا ختلافی فیصلہ جاری کرنے والے دو جج صاحبان نے اپنے فیصلے کو چار تین کے تناسب سے قرار دیتے ہوئے اسے قابل عمل قرار دیا ہے۔ اصولی طور پر ہونا یہ چاہیے تھا کہ ابتدائی سماعت کے مرحلہ میں اس اور دوسرے آئینی سوالات کا جواب حاصل کرکے آگے بڑھا جاتا۔ اسی طرح ازخود نوٹس میں فریق بنائے گئے افراد اور سیاسی جماعتوں کے علاوہ بار کونسلوں کے اعتراضات پر9رکنی بنچ سے الگ ہونے والے جسٹس اعجازالحسن کی نئے بنچ میں شمولیت بھی سوالات کو جنم دے گئی۔ جسٹس اعجازالحسن کے9رکنی بنچ میں شامل کئے جانے پر اعتراض یہ ہوا تھا کہ انہوں نے ایک ایسے معاملے میں ازخود نوٹس لینے کے لئے چیف جسٹس کو سفارش کی جو ان کے بنچ میں زیرسماعت ہی نہیں تھا۔ اس اعتراض پر وہ بنچ سے الگ ہوئے لیکن ازخود نوٹس فیصلے سے انحراف کے خلاف درخواست کی سماعت کرنے والے بنچ میں شامل ہیں یہ معاملہ قانونی حلقوں کے نزدیک تشویش کا باعث ٹھہرا۔ ازخود نوٹس کی سفارش نوٹس لئے جانے، بنچ کے9سے5رکنی ہونے، فیصلے اور بعد کے سارے معاملات اور اب 5رکنی بنچ ہوجانے تک کے درمیان نظام انصاف اور ججز کو جس طرح زیربحث لایا جارہا ہے وہ یقینا مثبت رویہ نہیں لیکن یہ امر بھی درست ہے کہ ججز کے اختلافات اور پھر ان کا خبروں کی صورت میں عوام تک پہنچنا ہی باتوں کا سبب بنا۔ یہ امر بجا طور پر حیران کن ہے کہ ایک بنچ کے فیصلے کو رجسٹرار کے سرکلر کے ذریعے غیرموثر قرار دلوایا گیا۔ رجسٹرار ازخود حکم جاری کرنے کا اختیار رکھتا ہے کہ کون سا فیصلہ قابل عمل ہے اور کون سا نہیں؟ ہماری دانست میں معاملے کے آغاز پر اٹھائے گئے دو سوال اہم تھے اولا یہ کہ جو معاملہ زیرسماعت نہیں تھا اس پر ازخود نوٹس کیوں لیا گیا؟ ثانیا یہ کہ معاملہ چونکہ آئینی نوعیت کا ہے اس پر فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواستوں کو قابل پذیرائی کیوں نہ سمجھا گیا؟ چیف جسٹس نے جمعہ کو تین رکنی بنچ کے ساتھ سماعت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو فل کورٹ کی تشکیل پر دلائل دینے کو کہا لیکن سوموار تک سماعت ملتوئی کیئے کے کورٹ میں حکم مختلف ہے ۔ یہ بدقسمتی ہی ہے کہ اس فیصلے اور پچھلے چند فیصلوں کو لے کر ایک ایسی بحث جاری ہے جس سے نظام انصاف کا چہرہ دھندلاگیا ہے۔ یہ اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستانی نظام انصاف مثالیت کے مقام پر کبھی بھی نہیں تھا حالیہ ازخود نوٹس کیس اور فیصلہ پہلی وجہ ہرگز نہیں کہ ججز کے اختلافات گلی محلوں میں زیربحث آرہے ہیں۔ یہ صورتحال ہر اس شخص کے لئے تشویش کا باعث ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ معاشی و سیاسی عدم استحکام سے بنی فضا میں عدالتیں اپنے فیصلوں سے بہتری لاسکتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آئین و قانون سے زیادہ شخصی انا اور پسندوناپسند کو اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ ایسا ہی ہے تو اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔ اس دوران پارلیمان نے سپریم کورٹ کے پروسیجر میں ترمیم کا بل منظور کرلیا۔ کچھ حلقے اسے سونے پر سہاگہ اور کچھ جواب آں غزل قرار دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے قابل غور بات پی ٹی آئی کے وکیل کی ہے انہوں نے دعوی کیا کہ یہ قانون 15دنوں میں معطل ہوجائے گا۔ کیا انہیں کہیں سے کوئی یقین دہانی کرائی گئی؟ عدلیہ کے وقار و احترام اور جج صاحبان کے لئے ادب و احترام اپنی جگہ مسلمہ ہیں مگر جو صورتحال بن چکی ہے اس سے صرف نظر کرنا بہت مشکل ہوگا۔ ہماری دانست میں اب بھی وقت ہے کہ کسی معاملے کو شخصی انا کے طور پر دیکھنے اور عمل کرنے کی بجائے یہ معاملہ فل کورٹ کی تشکیل سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر جو حالات بنتے دکھائی دے رہے ہیں وہ خاکم بدہن اگر خدشات کے مطابق ہی ہوئے تو اصلاح احوال کی گنجائش بھی نہیں رہے گی۔ ہم ایک بار پھر یہ درخواست کریں گے کہ ازخود نوٹس لئے جانے، فیصلے اور دیگر معاملات پر اٹھائے جانے والے قانونی سوالات سے آنکھیں بند کرنے کی بجائے انہیں زیرسماعت لایا جائے۔ جج صاحبان اپنے اختلافات کو کسی بھی طرح پبلک نہ کریں۔ نیز یہ کہ بہرصورت معاملے کی سماعت چاہے ایک جج ہی کیوں نہ رہ جائے کی سوچ ترک کرنا ہوگی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ملک کی اعلی ترین عدالت کے ذی وقار جج صاحبان شخصی احترام، عدالتی نظام اور انصاف کی ساکھ کو بچانے کیلئے کسی ایسے اقدام سے گریز نہیں کریں گے جو عدالتی بحران کے خاتمے کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل کے حل کا بھی ذریعہ بن سکے۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ