برادران سیاست کسی کے دوست نہیں

ایک پشتو کہاوت ہے کہ جس کا سامنا کرنے میں پوری رات پڑی ہو ‘ اس بلا سے خوف کیسا ‘ مگر اپنے شیخ رشید خدا جانے اتنے اتائولے کیوں ہو رہے ہیں کہ ابھی 23مارچ تک لگ بھگ ساڑھے تین ماہ سے بھی کچھ زیادہ کا عرصہ پڑا ہوا ہے مگر انہوں نے پی ڈی ایم والوں کی منتیں ترلے شروع کر دیئے ہیں کہ وہ اپنا مہنگائی(لانگ) مارچ 23 مارچ کو نہ نکالیں بلکہ آگے پیچھے کر لیں ‘ کیونکہ بقول شیخ رشید صاحب کے یہ تاریخ فوجی پریڈ کے لئے مختص ہے’ پھر نہ کہنا راستے بند کر دیئے ‘ ادھر اگرچہ پی ڈی ایم والوں نے بھی کہہ دیا ہے کہ 23مارچ ان کے لئے بھی اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جتنا سرکار کے لئے ‘ بہرحال تب تک کیا بنے گا ‘ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں اس حوالے سے ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ پی ڈی ایم والوں کے ”کرتوت” دیکھ کر اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ
خنجر اٹھے گا ‘ نہ تلوار ان سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
ابھی حالیہ ہفتوں میں ان کے ساتھ جو”رویہ” اختیار کیاگیا ‘ خصوصاً پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ان کا جو ”حشر” ہوا ‘ اس کے پیچھے کئی کہانیاں پس منظر میں موجود ہیں ‘اور ان میں سے ایک تو مبینہ طور پر یہ ہے کہ میاں صاحب کے ساتھ روابطہ استوار کرنے اور انہیں ایک”خاص ڈھب” پرلانے کی کوششوں میں ناکامی کے بعد ایک اور جھٹکا دینے کے لئے وقتی طور پر ”پھٹے ہوئے” صفحے کو دوبارہ جوڑنے کی حکمت عملی اختیار کر لی گئی تھی’ تاہم میاں صاحب اب تک ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں ‘ اس لئے پنجاب کے حالیہ ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کو”ہلہ شیری” دے کر نون لیگ کو ضرب لگانے کی کوشش کی گئی ‘ اور صورتحال اب یہ بنی ہے کہ پیپلز پارٹی کے تیور کچھ کے کچھ ہو رہے ہیں ‘ آصف علی زرداری کے بیانات کا”جادو” سر چڑھ کربول رہا ہے حالانکہ کئی تجزیہ کار اور واقفان حال اب بھی مصر ہیں کہ اسے پیپلز پارٹی کا مکمل کم بیک قرار نہیں دیا جا سکتا ‘ لیکن اس کا بہرحال نتیجہ یہ ضرور ابھر سکتا ہے کہ کئی ایک”قابل فتح” یعنی الیکٹیبلز جہاں نون لیگ کے ساتھ رابطے بڑھارہے ہیں ‘ وہاں پیپلز پارٹی کی منتیں ترلے بھی جاری ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ اگر ان دوجماعتوں میں جائے پناہ مل جائے تو وہ ”دھڑن تختہ” کی پالیسی پر آنکھیں بند کرکے آمنا و صدقنا کہنے کو تیار ہو سکتے ہیں ‘ بقول ناز مظفر آبادی
برادران سیاست کسی کے دوست نہیں
یہ بیچ دیں گے تمہیں کوڑیوں کے بھائو میں
پی ڈی ایم والے جس طرح گزشتہ کچھ عرصے سے سیاست سیاست کھیل رہے ہیں ‘ اس سے اندازہ تو ہوتا ہے کہ بھی یہ ایڈوانس کر جاتے ہیں اور ” مدمقابل” متبادل حکمت عملی اختیار کرکے ” وقتی پسپائی” پرمجبور ہوجاتے ہیں ‘ اور پھر یوں ہوتا ہے کہ پسپائی اختیار کرنے والے تازہ دم ہو کر کمک بہم پہنچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ‘ جبکہ یہ ”کمک” حزب اختلاف کے جتھوں کے اندر ہی سے تلاش کر لی جاتی ہے ‘ اور ان کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرکے ”الو” سیدھا کیا جاتا ہے ‘ سیاسی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب سے پی ڈی ایم سے پیپلز پارٹی اور اے این پی کو خارج کیاگیا ہے ‘ ان کے اندر اعتماد کی صورتحال بری طرح شکست وریخت سے دو چار ہو چکی ہے ‘ اور یہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں ‘ نہ تو استعفوں پر کوئی ایک بیانیہ اختیار کیا جارہا ہے ‘ نہ دھرنوں اور لانگ مارچ پر اتفاق رائے کی کوئی صورت دکھائی دے رہی ہے ‘ اور اب تو دور بلکہ بہت دور کی کوڑی لاتے ہوئے لانگ مارچ اور دھرنا نہیں بلکہ مہنگائی مارچ اور ایک روزہ مارچ کی باتیں کرکے یہ لوگ خود اپنا ہی مذاق اڑا رہے ہیں ‘ اس لئے کہ کیا آج عوام کو شدید مہنگائی اور اقتصادی دبائو کا سامنا نہیں ہے ؟حکومت آئی ایم ایف کے ہاتھوں مشکلات میں پھنس کر آنے والے دنوں میں جو منی بجٹ لانا چاہتی ہے کیا اس سے عوام کی چیخیں آسمان کو نہیں چھوئیں گی؟ توپھر پی ڈی ایم اور دیگر حزب اختلاف کی جماعتیں کس چیز کا چارمہینے تک انتظار کرناچاہتی ہیں’ یعنی بقول افتخارعارف
بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا
اے معبود آخر کب تماشا ختم ہو گا
چراغ حجرہ درویش کی بجھتی ہوئی لو
ہوا سے کہہ گئی ہے ‘ اب تماشا ختم ہوگا
اب اس سے کیا ہو گا اگر مہنگائی مارچ سے قبل پی ڈی ایم مختلف شہروں میں کنونشن ‘ جلسے اور سیمینار منعقد کرکے مہنگائی کے خلاف ‘ ڈفلی بجا بجا کر قوالی کے انداز میں اہے واہ ‘ اہے واہ کے ڈونگرے برسا برسا کرعزیزمیاں قوال ‘ نصرت فتح علی خان اور صابری برادران کی طرز پر دونوں ہاتھوں سے تالیاں پیٹ پیٹ کر عوام کو ”لبھانے” کی کوشش کریں گے ان کی تالیاں پیٹنے سے ممکن ہے ایک آدھ ڈینگی مچھر زد میں آکر مرجائے مگر مہنگائی کے مچھروں کا کچھ نہیں بگڑنے والا ‘ ایسی صورت میں شیخ رشید کیوں اتائولے ہو کر کسی انجانے خوف میں مبتلا ہوئے جارہے ہیں ۔ جہاں تک فوجی پریڈ کا تعلق ہے تو وہ سارا کھیل زیادہ سے زیادہ تین چار گھنٹے کا ہوتا ہے اور اس کے بعد اگر پی ڈی ایم والے اپنا مہنگائی مارچ لے کرآ تے ہیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ‘ حالانکہ جس طرح اوپر کی سطور میں گزارش کی جا چکی ہے کہ ابھی لگ بھگ ساڑھے تین مہینے کی مدت پڑی ہے اور اتنی مدت میں صورتحال بقول شاعر محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی والی ہو سکتی ہے ‘ اس لئے شیخ صاحب حوصلہ رکھیں ‘ پی ڈی ایم والوں سے کچھ ہونا ہوا نا نہیں ہے ‘ بس یہ آپس کے اختلافات میں الجھے رہیں گے اور معاملہ چڑیاں چگ گئیں کھیت والی صورتحال اختیار کرکے ٹائیں ٹائیں فش ہوجائے گا۔ کہ بقول عابد ملک
ہزار طعنے سنے گا خجل نہیں ہوگا
یہ وہ ہجوم ہے جو مشتعل نہیں ہوگا
اندھیرا پوجنے والوں نے فیصلہ دیا ہے
چراغ اب کسی شب میں مخل نہیں ہوگا

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات