بری ا لذمہ ہونے کی سعی کیوں؟

نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوانے آلودگی میں کمی لانے کے لئے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ آلودگی کا باعث بننے والی گاڑیوں کے خلاف بھی کارروائی کی ہدایت کی تھی جس میں نجی سکولوں کی بسوں کابھی حصہ شامل ہونا فطری امرتھا نجی سکولوں کی پرانی بسوں کے سایلنسروں سے نکلنے والا کالادھواںکوئی ایسی غیرمرئی یا محسوس نہ کئے جانے کے قابل امر نہیں جس کا سراسر انکارکیا جا سکے بلکہ یہ نوشتہ دیوار ہے جس کا دفاع کرنے کی بجائے پرانی گاڑیوں کی مرمت پرتوجہ کی ضرورت ہے اس امر کونظرانداز کرتے ہوئے جو وضاحتی بیان جاری ہوا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ پشاور سمیت صوبہ بھر میںسکول بسوں کی مجموعی تعداد 150ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پبلک اور نجی ٹرانسپورٹ کی لاکھوں گاڑیاں 12سے 24گھنٹے سڑکوں پر موجود ہوتی ہیں اس لئے سکول بسوں کا فضائی آلودگی میں کوئی کردار نہیں بنتا ،بتایا جاتا ہے کہ سکول بسیں سال کے 365دنوں میں صرف180دن چلتی ہیں جن کا روزانہ کا سفر ایک سے ڈیڑھ گھنٹے پر محیط ہوتا ہے، گزشتہ سال عدالت نے بھی متعلقہ اداروں کو سکول بسوں کے خلاف کارروائی سے روک دیا تھا۔اس سے یکسر انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس حقیقت سے بھی یکسر انکار کی گنجائش نہیں کہ سکولوں کی کھٹارہ بسیں بالکل بھی آلودگی کا باعث نہیں بنتیں سوال یہ نہیں کہ یہ کتنا عرصہ چلتی ہیں اصل بات یہ ہے کہ آلودگی میں ان کاحصہ ہے یا نہیں جس کا واضح جواب یہ ہے کہ ان بسوں کا شمار بھی ماحولیاتی کثافت کا سبب بننے والے عوامل میں ہوتا ہے ان پرپابندی لگانے کا کسی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے اورنہ ہی ایسا مناسب ہوگا بلکہ مناسب یہی ہوگا کہ ان بسوں کی حالت زار پرتوجہ دی جائے اور ان بسوں کو اس وقت ہی سڑکوں پر لایاجائے جب ماحولیاتی ادارے اور متعلقہ حکام ان بسوں کا معائنہ کرنے کے بعد ان بسوں کو اجازت نامہ جاری کریں۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ