بلوچستان ، تصویر کے دونوں رخ سامنے رکھنا ہوں گے

جس بنیادی سوال کو ہمارے ہاں عوامی سیاسی اور ذرائع ابلاغ کی سطح پر پچھلی کئی دہائیوں سے یکسر نظر انداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ”بلوچستان کا اصل مسلہ کیا ہے ؟” اس سوال نے ایک بار پھر گزشتہ روز دستک دی اس کی وجہ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ”بلوچستان میں سرگرم دہشت گردوں کو بیرونی فنڈنگ ہورہی ہے، انہیں ترقی کے اہداف حاصل کرکے شکست دیں گے، ہماری حکومت بلوچستان میں تعمیروترقی کے حوالے سے ایسے کام کرجائے گی کہ دہشت گردوں کی بات بھی کوئی نہیں سنے گا” بلوچستان میں نوشکی کے مقام پر ایف سی کے ہیڈ کوارٹر کے دورہ کے موقع پر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ”دشمن پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں مگر انہیں منہ کی کھانا پڑے گی”۔ وزیراعظم نے اس موقع پر ایف سی اور رینجرز کی تنخواہوں میں15فیصد اضافے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں مہنگائی سے تنخواہ دار طبقے کی مشکلات کا احساس ہے۔ ملکی وسائل بڑھتے ہی دوسروں کی تنخواہیں بھی بڑھائیں گے(یہ سطور لکھتے ہوئے اطلاع ملی کہ وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں15فیصد اضافہ کردیا گیا ہے)۔ اپنے دورہ نوشکی کے موقع پر وزیراعظم نے دشمنوں کی سازشوں، دہشت گردوں کو حاصل بیرونی فنڈنگ اور بلوچستان میں تعمیروترقی کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا ان پر بحث اٹھانے سے قبل ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بلوچستان میں جاری دہشت گردی کی ایک سے زائد وجوہات ہیں ، اہم ترین وجہ سی پیک منصوبے کے ثمرات کو بلوچستان کے عوام تک پہنچنے سے روکنا ہوسکتا ہے۔ ثانیاً تخریب کاری کی اس لہر کے پیچھے بلوچوں کو گریٹر بلوچستان کا خواب فروخت کرنے والی قوتوں کی موجودگی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان تین نکات کے علاوہ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اس کا ایک پہلو خطے میں تجارتی مفادات بھی ہیں ان کا دعوی ہے کہ ماضی میں ایک سے زائد بار ان ریاستوں کے حوالے سے بھی شواہد سامنے آچکے جن کا خیال ہے کہ سی پیک منصوبہ مکمل ہونے کی صورت میں علاقائی تجارت کے ذرائع پر ان کی بالادستی کمزور پڑجائے گی کیونکہ دنیا کو سی پیک کی صورت میں ایک نیا اور محفوظ تجارتی راستہ مل جائے گا۔
مندرجہ بالا وجوہات یقینا غور طلب ہیں لیکن اس امر کو بھی مدنظر رکھنے کی بطور خاص ضرورت ہے کہ بلوچستان کے مسائل اور جاری تخریب کاری کی ایک وجہ چوتھے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور کی بعض پالیسیاں اور اقدامات بھی ہیں ان میں ایک اہم وجہ نواب محمد اکبر بگٹی کا قتل بھی ہے ۔دہشت گردوں سے نمٹنے کی حکمت عملی الگ ہو اور بلوچ عوام کو لاحق مسائل سے نمٹنے کی حکمت عملی یکسر الگ تاکہ عوام کو یہ احساس دلایا جاسکے کہ اہل اقتدار ان کے مسائل سے غافل نہیں ہیں۔ اس امر کو بھی یقینی بنانا ہوگاکہ بلوچستان میں تعمیروترقی کے اہداف عام شہری تک پہنچیں۔ بدقسمتی سے اب تک (ہمیشہ سے(یہ تاثر رہا ہے کہ ترقیاتی منصوبے سرداروں کے مفادات کی تکمیل کے لئے ہوتے ہیں یہ شکوہ کچھ غلط بھی نہیں۔ یہاں ہم مکرر اس امر کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری خیال کرتے ہیں کہ بلوچستان میں بیرونی قوتوں کے تعاون سے سرگرم عمل تخریب کاروں کے نیٹ ورک اور پروپیگنڈہ مہم ہر دو کا مقابلہ کرتے وقت یہ ضرور پیش نظر رہے کہ اختیارات سے تجاوز کی کوئی ایسی مثال قائم نہ ہونے پائے جس سے پروپیگنڈے کرنے والوں کو فائدہ پہنچ سکے کیونکہ ماضی میں چند ایسے واقعات رونما ہوئے جن سے دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے دوران قربانیاں دینے والوں کے اداروں پر سوالات اٹھے اور بدقسمتی سے علیحدگی پسندوں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ وزیراعظم کا یہ کہنا درست ہے کہ پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے وسیع تر قومی اتحاد کا عملی مظاہرہ بہت ضروری ہے۔ لیکن کیا محض یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ عوام اور ملکی دفاع پر مامور اداروں کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کے لئے مذموم پروپیگنڈے میں مصروف عناصر قومی سلامتی کے دشمنوں کے مقاصد کو آگے بڑھارہے ہیں ؟۔ ملک دشمن قوتوں کے اشاروں پر مذموم پروپیگنڈہ کرنے والے ہوں یا قومی سلامتی پر حملہ آور دہشت گرد، ان میں سے کوئی بھی کسی قسم کی رعایت کا مستحق نہیں البتہ اس امر کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ شرپسند عناصر عام شہریوں کو اپنی ڈھال بناکر لوگوں کو گمراہ نہ کرنے پائیں۔ ہماری رائے میں جس معاملے کو نظرانداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ سنجیدہ نوعیت کی شکایات کے ازالے کی بجائے چند ایسے اقدامات کئے گئے جن سے بداعتمادی کی خلیج وسیع ہوئی اسی طرح ذرائع ابلاغ اور سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں بلوچستان سے باہر کے لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ مسلہ ہے کیا ، خود بلوچستان کا ایک بڑا طبقہ یہ سوال کرتا دکھائی دیتا ہے کہ ہمارے مسائل پر پارلیمان میں بات کرنے میں کیا امر مانع ہے ؟ اس سوال سے آنکھیں چرانے کی بجائے حقیقت پسندانہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سی پیک منصوبے کی تکمیل کی صورت میں پاکستان کے دشمنوں کے عزائم ہمیشہ کے لئے خاک میں مل جائیں گے تو بہت ادب سے یہ دریافت کرنا ضروری ہے کہ داخلی اعتماد سازی کو نظر انداز کر کے کئے جانے والے دعووں کی حیثیت مشکوک ہوتی ہے چلیں حکومت کے موقف کو درست مان لیا جائے تو کیا پھر اس بات کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی جارہی کہ بلوچستان میں سی پیک منصوبے کی مقامی تعمیروترقی میں اہمیت کے حوالے سے ذرائع ابلاغ کے ذریعے خصوصی مہم چلائی جائے تاکہ بلوچ عوام حقیقت حال سے آگاہ ہوسکیں۔ باردیگر عرض ہے کہ معاملہ اتنا سادہ ہر گز نہیں ہمیں کھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگا کہ ریاست اور بلوچوں کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے سو جب تک اعتماد سازی کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں کیئے جاتے دوریاں کم نہیں ہوں گی دوریاں کم کرنے کا واحد راستہ ناراض لوگوں کو محبت اور عمل سے یہ باور کروانا ہوگا کہ اس ملک میں کوئی بھی دوسرے یا تیسرے درجہ کا شہری نہیں ریاست اور وسائل پر سب کا مساوی حق ہے اس کے ساتھ ساتھ اگر لاپتہ افراد کے معاملے پر پارلیمانی کمیشن بنادیا جائے تو یہ اعتماد کی بحالی کی طرف پہلا قدم ہوگا۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟