بولی اماں محمد علی کی

شفیق رام پوری کی نظم ” صدائے خاتون ” کا معروف شعر ‘ ‘بولی اماں محمد علی کی ۔۔جان بیٹا خلافت پہ دے دو’ ‘، دراصل اس ماں کے دل کی آواز تھی جس کے دو بیٹے تحریک ِ خلافت میں گرفتار ہوئے اورلگائے گئے قانونی دفعات کے مطابق انہیں پھانسی کی سزا بھی مل سکتی تھی۔ماں نے سزا کو سعادت سمجھتے ہوئے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی کہ قید سے رہائی کے لیے کبھی حکومت سے معافی مت مانگنا بلکہ جان بھی دینا پڑی تو قدم پیچھے نہ ہٹانا۔ یہ وہی خاتون ہے جو جنگ ِ آزادی کی تاریخ میں ”بی اماں ” کے نام سے مشہور ہوئی ۔بی اماں مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی کی ماں تھی جو نومبر 1924میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئی۔ لال قلعہ سے نسبت رکھنے والا بی اماں کا خاندان قومی خدمت کے جذبہ سے سرشار تھا۔
برطانوی عملداری کے دوران ان کے ایک بوڑھے چچا کو مراد آباد میں پھانسی دی گئی کہ وہ آزادی کی تحریک میں پیش پیش تھے۔ بی اماںنے کسی سکول میں تعلیم حاصل نہ کر سکی کہ اس وقت مسلمان عورتوں کے لیے اول تو تعلیمی ادارے نہ تھے اور چند ادارے موجود بھی تھے تو ان پر ہندو قوم کا قبضہ تھا۔ مسلمان شرفا غیر مذہب کے اثرات کے خوف سے اپنی بچیوں کا سکول میں داخلہ نہ کرتے۔ بی اماں 28سال کی عمر میں بیوہ ہو گئیں اوراسی بیوگی میں اپنے پانچ یتیم بیٹوں اور ایک بیٹی کی پرورش کے ساتھ اُنہیں زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ وہ پہلی مسلمان خاتون تھیں جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی جنگ آزادی میں حصہ لیا ، خواتین کے جلسے ترتیب دئیے اور خود برقعہ پہن کر مردانہ جلسوں میں تقا ریر کیں۔ اُنہوں نے ہر موقع پر خواتین کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنے شہر میں زنانہ سکول کھولیں تاکہ مسلمانوں کی بیٹیاں تعلیم حاصل کر سکیں ۔ اس طرح کئی شہروں میں مسلمان لڑکیوں کے لیے نجی سکولوں کی ابتدا ہوئی۔ بی اماں نے جب یہ محسوس کیا کہ بہت سے مسلمان اپنی بچیوں کو تعلیم دلوانے یا باہر آنے میں ہچکچا رہے ہیں تو اُنہوں نے اپنی جوان بہو بیگم محمد علی جوہر کو ساتھ لیا اور تحریک خلافت میں بھرپور طریقے سے کام کرنا شروع کیا۔ کراچی میں اپنے قیام کے دوران جب یہاں علی برادران پر مقدمہ چل رہا تھا تو اُنہوں نے لیڈی عبداللہ ہارون کو خواتین کی انجمن قائم کرنے پہ آمادہ کیا۔
اس انجمن کے تحت کراچی میں خواتین کا بہت بڑا جلسہ منعقد ہوا، جس میں لیڈی عبداللہ ہارون نے زندگی کی پہلی تقریر کی تھی۔ سر محمد شفیع کی بیٹی بیگم شاہنواز نے انہی دنوں پردے کی قید سے آزاد ہو کر لندن کی گول میز کانفرنس میں شرکت کی۔ بی اماں اب مسلسل ہر شہر جا کر تقریریں کرتی اور جب دوران سفر ریلوے سٹیشن پر لوگ اس جواں ہمت بوڑھی خاتون کو دیکھنے آتے تو یہ لوگوں میں گھل مل جاتی۔ جامعہ ملیہ دہلی میں اسناد کی تقسیم کے ایک جلسہ کی صدارت حکیم اجمل خان نے کی، تمام طلبہ محمد علی ہال میں جمع ہوئے۔ بی اماں نے اُنہیں مخاطب کیا ” میرے بچو ! مَیں نے برقع اُتار دیا ہے ۔اب اس مُلک میں کسی کی آبرو باقی نہیں جو میں برقع پہنوں۔مَیں نے اپنے جھنڈے کو لال قلعہ سے اُترتے دیکھا ہے میری آرزو ہے کی اس بدیسی جھنڈے کو بھی لال قلعہ سے اُترتے دیکھوں۔”بی اماں کی صحت گرنے لگی اور 1924میں چلنا پھرنا مشکل ہو گیا، اسی سال جب اخبار ”کامریڈ ” دوبارہ شائع ہونے لگا تو ڈولی منگوا کر پریس میں گئیں۔پہلے فرمے کا پروف دیکھا اور کارکنوں میں مٹھائی تقسیم کی۔ اُن کی زندگی بہت سادہ مگر انتہائی مصروف تھی۔وہ اپنے گھر کے امور، بچوں کی پرورش ،مسلمان عورتوں کی تعلیم و ترقی او ر پھر تحریک آزادی میں اس قدر مگن ہوئی کہ اپنی صحت پہ دھیان دینے میں غافل رہی۔ اپنی ہمت، ایثار ، شرافت اور اخلاص کا ایک اعلیٰ نمونہ پیش کر گئیں۔
آج ہمارے مُلک کی قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔یہ اس عمل کا تسلسل ہے جس کا آغاز بی اماں نے کیا تھا۔ آج ان خواتین رہنماؤں کو مراعات بھی حاصل ہیں،وہ کلیدی اسامیوں پہ فائز ہیں، وزارتوں کا قلمدان بھی ان کے پاس ہے، سپیکر رہی اور بطور وزیر اعظم اپنے فرائض سر انجام دئیے ہیں ۔کبھی کبھار ان خواتین کا رویہ ، گفتگو اور سیاسی کردار دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے کہ ان میں وہ جذبہ نہیں جو ان کی بزرگ ہستیوں کی پہچان تھا۔
قارئین کرام !! مَیں یہ کالم آج اس لیے بھی لکھ رہا ہوں کہ نومبر کے اسی مہینہ میں بی اماں کو ہم سے بچھڑے 98برس گزر گئے۔ مجھے خیال آیا کہ کیا ہماری اسمبلیوں میں بیٹھی خواتین ارکان کی اکثریت مرحومہ کے نام سے بھی آگاہ ہے یا نہیں ؟ آج وہ جس آزادی کے ساتھ ہر شام ٹاک شوز میں اپنی سیاسی جماعتوں اور قائدین کے حق میں کلمہ خیر اور مخالفین کی بد گوئی کو اپنا فرض سمجھتی ہیں ۔ کیا اُنہوں کے کبھی یہ سوچا کہ کسی روز اُن ہستیوں کو بھی یاد کیا جائے جنہوں نے قومی آزادی کی راہ میں مشکلات کا سامنا کیا مگر ان کے لیے آزادی سے بولنے اور لکھنے کی راہ پیدا کی ۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''