بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفاں کئے ہوئے

23 اپریل 1930ء کا خونیں واقعہ پشاور کی تاریخ کا ایک ایسا انمٹ نشان ہے جو انگریزحکمرانوں کے ماتھے پر کلنک بن کر ہفتہ حکمرانان انگلستان کو شرمندہ کرتا رہے گا، اگرچہ بر صغیر پرحکومت کرتے ہوئے انگریز آقائوں نے بہت سے مظالم ڈھائے اور تاریخ کو کھنگالا جائے تو جلیانوالہ باغ سمیت کئی خونین واقعات یادوں کے خونیں دریچے وا کرتے ہوئے ظلم و بربریت سے پردہ سرکاتے دکھائی دیتے ہیں، اور ان میں سے صرف جلیانوالہ باغ کے سانحے پر بھارتی حکومت کے مسلسل احتجاج پر بعد میں ملکہ الزبتھ کی زندگی میں انگلستان کی حکومت نے شرمندگی کا احساس کرتے ہوئے با قاعدہ معافی مانگی جبکہ پاکستان میں آج تک کسی حکومت نے سانحہ قصہ خوانی پر انگریز حکمرانوں کوان کی بربریت پر معافی مانگنے اور شرمندہ ہونے پر مجبور نہیں کیا’ بقول مرزا غالب
رکھیو نے غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
پاکستان کے علا قوں کے اندر انگریزوں کی بربریت اور ظلم و جور کی داستانیں صوبہ سرحد موجودہ خیبر پختونخوا) کے کئی علاقوں میں بکھری پڑی ہیں مگر چونکہ زیادہ تر یہ علاقے پختونوںکے ہیں جن کے بارے میں دیگر علاقوں کے سیاستدانوں، دانشوروں، اور (حکمرانوں) کا رویہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ ” خون چاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا” اس لئے سرکاری طور پر پاکستان کی جانب سے سابق صوبہ سرحد کے اندر انگریز حکمرانوں کی قتل و غارت گری اور خصوصاً قصہ خوانی میں نہتے شہریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر احتجاج کرنے اور جلیانوالہ باغ کے سانحے کی طرز پر اس خونیں داستان کو رقم کرنے پر معافی مانگنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی ‘ آج بھی دیکھا جائے تو ہر سال پنجاب میں اہل دانش ایک تاریخی کردار بھگت سنگھ کی یاد تو مناتے ہیں(جو یقینا تاریخ آزادی کے کرداروں میں سے ایک اہم مقام رکھتا ہے) ، اسی طرح بعض دانشور رنجیت سنگھ جیسے کردار کو بھی اپنا تاریخی ورثہ سمجھتے ہیں’ حالانکہ رنجیت سنگھ کا اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی کے حوالے سے کردار بالکل سامنے کی چیز ہے، مگر اس کے برعکس وہ احمد شاہ ابدالی کو”ڈا کو” سمجھتے ہیں، اور پنجابی شاعری میں احمد شاہ ابدالی کے خلاف جو ہرزہ سرائی تاریخ کا حصہ ہے وہ آج کے اہل پنجاب کو (جو اپنی اکثریت کی وجہ سے ملک کے سیاہ و سفید کے ہمیشہ مالک رہتے ہیں) اس لئے حکمران راہداریوں میں بھی کبھی قصہ خوانی سانحہ پر نہ تو افسوس کا اظہار سامنے آتا ہے نہ ہی انگریزوں سے اس سانحے پر معذرت کرنے کا مطالبہ کیاگیا’ جبکہ یہ خونین واقعہ جلیانوالہ باغ سانحے سے بڑا نہیں تو اپنی شدت اور بربریت کے حوالے سے کم بھی نہیں تھا پختون خطے کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ہمارے ہاں اس قسم کے واقعات کی مستند تاریخ کو یکجا کرنے پر بھی سنجیدہ توجہ نہیں دی گئی ‘ اس سلسلے میں جہاں انگریز سرکار کی بعض دستاویزات میں کچھ تفصیل ملتی ہے جس کو غیر جانبداری کا سرٹیفکیٹ ظاہر ہے نہیں دیا جا سکتا کہ انگریز عہدیداروں نے رپورٹ کرتے ہوئے روایتی جانبداری کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا ‘ وہاں بطور خاص تحریک خلافت کمیٹی کی طرف سے مقررہ کردہ بابائے صحافت صوبہ سرحد اللہ بخش یوسفی کی رپورٹ کوبہت زیادہ اہمیت حاصل ہے جنہوں نے باوجود پابندیوں کے اس ضمن میں نہایت عرق ریزی سے ایک جامع اور مکمل رپورٹ تحریرکر کے تاریخ کے سپرد کی ‘ اس کے علاوہ دیگر ذرائع نے بھی اس سانحے پر تاریخی واقعات کو یکجا کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جبکہ اس سانحے کی مزید تفصیلات بھی پشاور کے اہل دانش ‘ تاریخ دانوں اور سیاسی رہنمائوں پر قرض ہیں اور مزید تحقیق کرکے اس سانحے کے اصل حقائق کو طشت ازبام کرنے میں آنے والی نسلوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ‘ اس سلسلے میں تازہ ترین کاوش محترمہ آفتاب اقبال بانو نے کتابی صورت میں سامنے لا کر کچھ حد تک اس قرض کو اتارنے میں کامیابی حاصل کی ہے’ پشاور میں پیدا ہونے والے آفتاب اقبال بانو سے ہمارا تعلق ریڈیو پاکستان کے ناتے سے ہے ‘ ہم دونوں تقریباً ڈھائی دہائیوں تک اس عظیم ثقافتی ادارے سے ایک ساتھ وابستہ رہے ‘ آفتاب بانو ایک بہت اچھی براڈکاسٹر اور اہل قلم ہیں ‘ آج کل وہ مستقل طور پر اپنے خاندان کے ساتھ کینیڈا میں فروکش ہیں ‘ مگر اپنانا تا اپنے وطن اور خاص طور پر اپنی جنم بھومی پشاور سے برقرار رکھے ہوئے ہیں ‘ کالم نگاری’ سفرنامہ نگاری کے میدان میں بھی بہت فعال ہیں اور اب کی بار اپنی کتابوں کی فہرست میں سانحہ قصہ خوانی کے حوالے سے ”قصہ خوانی کا قتل عام” کے نام سے بھولی بسری اور بکھری ہوئی تاریخ کے حوالے سے ایک اہم دستاویز لے کر سامنے آئی ہیں ‘ پشاور کے مشہور قصہ خوانی بازار میں 23 اپریل 1930ء کو رقم ہوئی اس خونین داستان کے بارے میں اگرچہ ابھی مزید حقائق سامنے آتے رہیں گے مگر جس عرق ریزی سے محترمہ آفتاب اقبال بانو نے تاریخ کے اوراق کھنگال کر بہت سے حقائق سامنے لانے کی کوشش کی ہے اس نے اس کتاب کو آنے والی نسلوں کے لئے ایک اہم دستاویز بنا کر آنے والی پیڑھی کے حوالے کر دیا ہے اور یقینا اسے ریفرنس بک کے طور پر قدرو منزلت ملے گی۔
بات کتابوں کی ہو رہی ہے تو آج کی نشست میں ایک اور کتاب اور اخباری کالموں کا مجموعہ احساس ہمارے سامنے ہے ‘ محترمہ ناز پروین اخباری صحافت اور خاص طور پر کالم نگاری کے میدان میں تازہ کار لکھاری کے طور پر شامل ہیں ‘ آج کی صحافت میں اخبارات کی اہمیت ان میں شائع ہونے والے کالموں کی وجہ سے یوں دو چند ہو جاتی ہے کہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر 24/7 خبروں کی بھر مار کی وجہ سے اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں بعض اوقات اگلے ہی روز پرانی اور باسی کے زمرے میں شامل ہو جاتی ہیں تاہم حالات و واقعات پر لکھے ہوئے کالم قارئین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیاب رہتے ہیں ‘ اس حوالے سے محترمہ ناز پروین کے کالموں کے مجموعے”احساس” کامطالعہ کرنے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ موصوفہ معاشرتی حوالوں سے بہت حساس طبیعت کی مالک ہیں ‘ ان کی نگاہوں سے عام آدمی کا کوئی مسئلہ اوجھل ہونے نہیں پاتا’ وہ معاشرتی کج رویوں پر گہرائی میں جا کر نہایت خوبصورت پیرائے میں اپنے تجزیاتی تحریروں کے ذریعے ان مسائل سے نمٹنے کے لئے ان کا حل تجویز کرتی ہیں ۔ اس میں کئی شک نہیں کہ ابھی وہ اس میدان میں تازہ واردان کی صف میں کھڑی ہیں لیکن وہ قلم کی حرمت کے حوالے سے بہت زیادہ محتاط ہیں اور تجربہ انسان کوکندن بنا دیتا ہے’ اس لئے ان سے بجا طور پر یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ایک نہ ایک روز ملک کے اعلیٰ پائے کے کالم نگاروں میں ممتاز مقام حاصل کریں گی ‘ ان کے لئے بس یہی دعا کی جا سکتی ہے کہ
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
تیسری کتاب (آپ چاہیں تو اسے رسالہ قرار دیں یا کتاب) کیونکہ شائع تو یہ بطور رسالہ ہوا ہے ‘ مگر اس کے مندرجات کے حوالے سے اے کتاب قرار دینے میں کوئی امر مانع نہیں ہو سکتا ‘ اور جہاں تک ہماری معلومات کاتعلق ہے تو پاکستان بھرمیں موجود خواتین اہل قلم کی کسی تنظیم کی جا نب سے تسلسل کے ساتھ شائع ہونے والا پہلا ادبی رسالہ ہے جسے ”کتابی سیریز” کا نام دیا جا سکتا ہے ‘ پشاور جیسے سنگلاخ ادبی سرزمین سے ابھرنے والی خواتین اہل قلم کی فعال تنظیم کاروان حوا کے زیر اہتمام ‘ انتظام اور انصرام یہ واحد ادبی جریدہ ہے جو معیار کے لحاظ سے اپنی افادیت کا احساس دلاتا ہے اس کی میر مدیرہ تنظیم کی روح رواں بشریٰ فرخ ہیں ‘ اور کئی سال سے پشاور کی اہم اہل قلم خواتین کے ساتھ مل کر نہایت کامیابی سے یہ تنظیم چلا رہی ہیں ‘ اس تنظیم کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی فعال اراکین میں کئی ایسی اہل قلم شامل ہیں جنہوں نے اب تک کئی کتابیں جن میں شعری مجموعے اور سفرنامے بطور خاص شامل ہیں ‘ شائع کرا کے ”اپنے ہونے کا” احساس دلایا ہے’ بشریٰ فرخ کوان کی ادبی اور فنی خدمات کے اعتراف میں گزشتہ برس صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا ‘ بات ہو رہی تھی کاروان حوا نام کی ادبی تنظیم کے تحت شائع ہونے والے ادبی جریدے ”کاروان حوا” سالنامہ 2023ء کی جس میں نہ صرف خواتین اہل قلم کی تحریریں شامل ہیں بلکہ نمایاں مرد ادباء و شعراء کی تحریریں بھی اس جریدے کی اہمیت دوچند کرنے کاباعث ہیں ‘ ابتداء میں اس ادبی جریدے کی طباعت و اشاعت اگرچہ اتنی قابل توجہ نہیں تھی جس کی وجہ خواتین ادیبوں اورشاعرات کی ناتجربہ کاری تھی ‘ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب اس جریدے کی صوری اور معنوی اہمیت بڑھتی جارہی ہے ‘ نہ صرف کاغذ کی کوالٹی پر توجہ دی گئی ہے بلکہ اشاعت و طباعت بھی نفاست کا پہلو لئے ہوئے ہے ‘ اگر تنظیم کی اراکین اسی محنت اور توجہ سے آگے سفر جاری رکھتے ہوئے بڑھتی رہیں تو یہ ادبی جریدہ ملک بھر کے اہل قلم کی بھر پور توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے گا ‘ کہ بقول مرزا غالب
غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفان کئے ہوئے

مزید پڑھیں:  بندر بانٹ