تاج محل تا کو ہ نورتک

گزشتہ دنوں یو ں تو کئی اہم خبریں منظر عام پر آئیں تاہم ایک ایسی خبر تھی جو نما یا ں طور پر شائع نہیں ہوپائی لیکن اہم ترین ضرور تھی وہ یہ تھی کہ کر اچی میں زرتشت عقیدے کے افراد کی بستی خالی خالی سی ہو کر رہ گئی ہے ، مکین کہا ں چلے گئے اس بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ یہا ں سے نقل مکا نی کرگئے ، زرتشت مہذہب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ آگ کی پو جا کر تے ہیں اور اسی بنیا د پر سورج کی بھی پوجا ری ہیں ، ان کے بارے میں بتایا جا تا ہے کہ یہ سورج کی پوجا اس وقت کر تے ہیںجب وہ طلوع ہورہا ہوتا ہے اور یا پھر غروب ہو رہا ہو چنانچہ انھی دو اوقات میں اسلا م میں نما ز ادا کر نا ممنوع ہے تاکہ مشابہت نہ ہو جا ئے ، متحدہ ہندوستان میں ان کی آمد کے بارے میںکوئی حتمی رائے تو نہیں پائی جا تی ہے تاہم کہا یہ ہی جا تا ہے کہ یہ مذہب ایر انیوں کا رہا ہے ، جب وہا ں اسلا م کا غلبہ ہو ا تو ان میں سے جنہوں نے اسلا م قبول نہیںکیا وہ ہندوستان نقل مکا نی کرگئے تاہم یہ بنیا دی طو رپر سرمایہ کا ر ہیں چنانچہ انھوں نے ہندوستان کے ساحلی علاقوں کو اپنا مسکن بنا یا ، البتہ دوسرے شہر وں میں بھی آباد ہوئی مگر قلیل تعداد میں پشاور میں بھی گنتی کے خاندان آبادتھے ان میں سوکارنیو چوک کے سامنے لیڈی ریڈنگ اسپتال کی دیو ار سے متصل پشاور کے ہر دلعزیز ڈینٹل ڈاکٹر فرامجی کا کلینک تھا وہ کسی کو دکھ درد میں نہیں دیکھ پاتے تھے چنا نچہ اپنی پریکٹس کے دوران انھوں نے کسی مر یض کا دانت نہیں نکالا ، اگر کسی کا دانت نکالنا نا گزیر ہوتا تو اس کو مشورہ دیتے کہ اسپتال چلے جاؤ اور وہا ں دانت نکلوالو ، ہندوستان خاص طور پر بھارت کی اقتصادی ترقی میں آتش پر ست خاندان کا بڑ ا ہاتھ ہیدنیا میں دور جدید میں سب سے زیادہ پارسی خاندانوں میںسے ٹاٹا خاندان کو شہر ت ملی ہے کیو ں کہ اس خاندان نے بھارت کی اقتصادی ترقی میں نمایاں کر دار ادا کیا ہے ، اس خاندان کے بانی سرجمشید ٹاٹا کہلوائے جا تے ہیں ۔ ویسے تو اس خاندان کو ایک بہت بڑے صعنت کار خاندان کے طور پرجانا جا
تاہے مگر انھو ں نے عوام کی فلا ح بہبو د کے لیے لاجو اب خدما ت انجا م دیں ہیںجس نے ان کے ملک کی تر قی اور اقتصادی استحکا م میں اہم کر دار اد اکیا ہے دنیا کے بڑے اور عالیشان ہو ٹلوں میں سے ایک ہوٹل ممبئی کے گیٹ وے انڈیا میں تاج محل ہو ٹل سے آج بھی بڑی شان سے کھڑا ہے یہ ٹا ٹا خاندان کے جمشید ٹا ٹا نے بنایا اور 16دسمبر 1903عوام کے لیے کھول دیا گیا ، اس ہوٹل کی تعمیر کی بھی ایک کہا نی ہے کہا جا تا ہے کہ جمشید ٹاٹا اپنے سادہ لبا س میں ممبئی کے سب سے اونچے درجے کے ہو ٹل گئے جہا ں ان کو داخل ہونے سے روک دیا گیا ، کیوںکہ ایک تو وہ سادہ لبا س میں تھے دوم وہاں تنہا کسی دیسی فر د کو داخلے کی اجا زت نہ تھی جس پر جمشید ٹاٹا نے ٹھانی کہ وہ اس ہو ٹل سے بھی زیا دہ شاندار ہو ٹل تعمیر کرائیں گے جس میں بلا تفریق ہر ایک کو داخلے کی اجا زت ہو گی چنا نچہ انھو ں نے یہ خواب دیکھا تھا چنانچہ عظیم ترین و شاندار ہو ٹل کا نا م بھی تاج محل کے نا م پر منسوب کر دیا کیو ں کہ وہ بھی پیا ر و انس کا خواب ہے ، پاکستان میں بھی رفاحی کا م کرنے والو ں کی کوئی کمی نہیں ہے ایسے افرا د کی بہتات ہے جو نا م ونمو د کے لیے فلاحی کا م نہیں کر تے بلکہ صدق دل سے انسانیت کی خدمت انجا م دیتے ہیں اس کی ایک مثال لا ہو ر میں رائے ونڈ کے قریب دنیا کے جدید ترین کینسر اسپتال ہے ،جو دنیاکے جدید ترین اسپتالوں کے برابر ہے اس کا عملہ بھی ماہر ترین افراد پر مشتمل ہے علا وہ ازیںاس اسپتال کی خوبی یہ بھی ہے کہ کسی بھی عمر کا مریض اسپتال آئے اس کے علاج سے انکا ر نہیں کیا جا تا ، علا وہ ازیں مریض کے ساتھ
دیکھ بھال کے لیے آنے والے تیما ر دار کے قیام کا بھی بندوبست موجو د ہے اور اس کی بھی خوراک بھی مفت ہے علاج کا کوئی خرچہ نہیں لیاجا تا ، لیکن اسپتال کے اخرجا ت پورے کرنے والو ں کے بارے میں کوئی باخبر نہیں ہے کہ کس نے تعمیر کیا کو ن اخراجا ت برداشت کررہا ہے ۔ اسی طر ح متحدہ ہند وستان کے ہر فرد کے لیے تاج محل اور کو ہ نو ر ہیرا ۔ کو ہ نورہیر ا تو برطانوی بادشاہت کے تاج میں سجا دیا گیا ہے ، جس پر تخت شاہی برطانیہ کو بڑ ا گھمنڈ ہے ، لیکن کو ہ نو ر ہیر ے کی طرح ایک اورہیر ا بھی ہے جو اپنی قدر ان مول رکھتا ہے وہ پارسی خاندان سرجمشید ٹاٹا کے صاحبزادے سردراب ٹاٹا کی اہلیہ مہر بائی ٹاٹاکی ملکیت میںکو ہ نور ہیرا سے دگنی جسامت اور وزن رکھنے والا 254قیر ا ط کا ہیر ا تھا جب 1924 میںعالمی کسا د با زاری کی وجہ سے ہندوستان کی صنع تیں دیو الیہ ہو رہی تھی تب مہر بائی نے اپنا یہ بے بہا قیتی ہیر ا امپریل بینک کے پاس ایک کروڑ کے عوض گروی رکھا اور ٹاٹا کمپنی کو دیو الیہ ہو نے سے بچا لیا ، جب مہر بائی دارب خون کے کینسر کے موذی مر ض میں مبتلا ہو کر آنجہا نی ہو گئیں توٹاٹا خاندان نے وہ ہیر ا فروخت کر کے ہند وستان میں کینسر کے علا ج اور اس کی تحقیق کا ادارہ قائم کر دیا جو آج بھی دنیا کے بڑے اداروں میں شما ر ہو تا ہے یہا ں بھی علاج کی سہولیات مفت ہیں مہر بائی کے ورثاء میں سے کسی نے نہیں کہا کہ یہ ہیر ا اب ان کی والد ہ کے دنیا سے رخصت ہو نے کے بعد ان کی ملکیت ہے بلکہ اس کو انسان کی فلا ح وبہبود پر صرف کر دیا ہے ۔ یہ سی مثالیں ترقی یافتہ ممالک میں تو مل جاتی ہیں مگر ترقی پزیر ممالک میں عنقاہی ہیں ، اگر ہیں تو اپنے قائم کر دہ اداروں کی پبلسیٹی اس طرح کی جا تی ہے کہ عوام کو اپنا احسان مند بنا دیا جا تاہے ، پاکستان میں لا ہور کے علاقہ رائے ونڈ کی عمدہ مثال ہے ، ایسی مثالیں قوم کو قائم کرنا ہو ں گی تب پاکستان اپنی مشکلا ت حل کرپائے گا یا پھر ٹاٹا خاندان کی طرح جمشید پور جیسا صنعتی شہر آبادکرناہو گا ۔

مزید پڑھیں:  ڈیڑھ اینٹ کی مسجد