تجربات بھری تاریخ کے تلخ حقائق

اس امر پر دو آرا نہیں کہ سیاسی نظام میں کسی بھی قسم کی مداخلت نہ صرف رائے دہندگان کے حق حکمرانی کی توہین بلکہ دستور سے بھی انحراف ہے۔ تلخ ترین حقیقت یہی ہے کہ یہاں کوئی شخص اپنی تعلیم اور صلاحیت کے مطابق ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوناچاہتا ہے نہ کوئی محکمہ اور ادارہ دستور میں طے شدہ حدود میں رہ کر فرائض منصبی ادا کرنے پر توجہ دیتا ہے ۔ دوسروں کے معاملات میں مداخلت اور اپنے شعبہ کی بجائے دیگر شعبوں کے ماہرین کے طور پر کردار ادا کرنے کے جنون نے گزشتہ 75برسوں میں جو گل کھلائے ان سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ ملک میں 4بار فوجی حکومتیں یا پھر اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ جرنیلی جمہوریتیں کیوں قائم ہوئیں ان پر دفتر کے دفتر تو سیاہ کئے گئے لیکن آزادانہ تجزیہ سے عوام کی اس سمت رہنمائی نہیں کی جاسکی کہ ان ماورائے آئین اقدامات کے نتائج کیا نکلے۔ کہنے کی حد تک ہر سرکاری ملازم اس امر کا قانونی طور پر پابند ہے کہ وہ اپنے فرائض منصبی کی حدود سے تجاوز نہ کرے مگر عملی طورپر کیا ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ جمہوری روایات واقدار اور نظام حکومت کے استحکام کے خواب اسی لئے شرمندہ تعبیر نہیں ہوپائے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت منظم انداز میں پہلے جمہوری نظام کے خلاف پروپیگنڈہ کروایا گیا کہا جاتا رہا کہ جمہوریت ہمارے خمیر میں ہی شامل نہیں ہمارا خمیر شخصی حکمرانی کی اطاعت سے گندھا ہوا ہے۔ عوام الناس کی بڑی تعداد نے جب ووٹ کی طاقت سے اس پروپیگنڈے کو مسترد کر دیا تو سیاستدانوں پر ہر وہ بیہودہ الزام لگایا لگوایا گیا جو لگایا جاسکتا تھا۔ ہر دو انداز کے پروپیگنڈے نے یہ تاثر پختہ کیا کہ ملک کو صرف ایک محکمہ سنبھال چلا اور آگے بڑھاسکتا ہے۔ حب الوطنی اور دیگر معاملات میں اس کا مقابلہ ممکن ہی نہیں۔ سیاسی عدم استحکام کیوں پیدا ہوا یا یہ کہ ماضی میں ایک سے زائد بار ملک اور عوام کو عدم استحکام کا سامنا کیوں کرنا پڑا یہ اہم سوال تو ہے لیکن راز ہائے درون سینہ ہرگز نہیں۔ آج اگر یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ سیاسی مداخلت ہوگی نہ کسی کو سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی اجازت دی جائے گی تو یہ خوش آئند ہے مگر اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ عدم مداخلت اور فرائض پر کامل توجہ مرکوز کرنے کے عزم کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مداخلت اور شوق حکمرانی سے پیدا ہوئے مسائل بگاڑوں اور المیوں کی ذمہ داریوں بھی قبول کی جائے بالکل اسی طرح جیسے چند برس قبل 40سالہ افغان پالیسی کے نقصانات کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہوئے اس کی ازسرنو تشکیل کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا تھا۔مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ کاکول میں ملٹری اکیڈمی کے کیڈٹس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ کی تقریب سے گزشتہ دنوں خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جن خیالات کا اظہارکیا وہ نہ صرف درست ہیں بلکہ اس حلف کے عین مطابق بھی جو پاسنگ آئوٹ پریڈ کے موقع پر ہر کیڈٹ اٹھاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ خیالات وقتی جذبات پر اظہاریہ ہیں یا مستقبل کے لئے پالیسی ساز بیانیہ؟ کسی بھی معاشرے اور ملک میں مسلح افواج سمیت تمام سرکاری محکموں کے فرائض کی حدود مقرر ہوتی ہیں، ریاستی دستور ہی طے کرتا ہے کہ کس کے کیا فرائض ہیں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے ماضی بعید و قریب دونوں اس حوالے سے خوشگوار نہیں رہے۔ ان حالات میں اگر یہ کہا جائے کہ مندرجہ بالا خیالات و جذبات ایک حالیہ تجربے کی خطرناک ناکامی کا اعتراف ہیں تو یہ غلط نہ ہوگا۔سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں پر راج محل تک رسائی حاصل کرنے اور جمہوری نظام کے خلاف سازشوں میں دیوانہ وار کردار ادا کرنے پر ان سیاسی جماعتوں نے کبھی عوام سے معافی کیوں نہیں مانگی؟ کیااس کی وجہ محض یہ ہے کہ وہ دوبارہ اسی ذریعے سے ایوان اقتدار تک رسائی چاہتی ہیں؟ بظاہر یہی لگتا ہے کہ مقبول سیاسی جماعتوں کے ایک بڑے حصے کو عوام الناس کی طاقت پر اعتماد نہیں یا پھر وہ یہ سمجھتی ہیں کہ عوامی رائے کچھ بھی رہی ہو، ہوتا وہی ہے جو اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے۔ سیاستدانوں کو بھی اپنے اختلافات خود طے کرنے چاہئیں۔ بجٹ یا قانون سازی کے مراحل میں ایجنسیوں سے یہ درخواست ہرگز نہیں کرنی چاہیے کہ حکومت کی ساکھ بچانے اور بھرم قائم رکھنے کے لئے ارکان کو ایوان میں لایا جائے صرف یہی نہیں بلکہ ان کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کرکے رائے شماری کے عمل میں حکومت کو ووٹ بھی دلوایا جائے۔ سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران کو بطور خاص یہ بات مدنظر رکھنا ہوگی کہ غیرجمہوری رویوں اور اسٹیبلشمنٹ کی چاکری ہر دو نے ملک، جمہوریت اور نظام کو تو نقصان پہنچایا ہی ہے اس سے ہماری سماجی وحدت بھی خوفناک حد تک متاثر ہوئی ہے۔ آرمی چیف نے کاکول اکیڈمی کی تقریب میں مثبت خیالات کا اظہار کیا ۔ حقیقت بہر طور یہی ہے کہ مسلح افواج کا فرض ریاستی سرحدوں کی حفاظت، دستوری حکومت سے تعاون اور احکامات کی بجاآوری کے ساتھ مشکل حالات اور قدرتی آفات میں حکومت کا بازو بن کر کردار ادا کرنا ہے۔ یہی ساری دنیا کی مسلح افواج کرتی ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ایڈونچرازم، نظریہ سازی، شراکت اقتدار اور اقتدار سازی کے عمل میں کردار رکھنے کی تاریخ اور نتائج کو یقینا مدنظر رکھا گیا ہوگا یہ بھی کہ اس ملک کے عوام کو دیگر اقوام کی طرح اپنی مسلح افواج سے یقینا توقعات ہوں گی لیکن یہ توقع امور مملکت میں مداخلت کے حوالے سے ہرگز نہیں۔ ہم مکرر سیاسی قیادت کی خدمت میں بھی یہ عرض کریں گے کہ سیاسی میدان میں اپنے منشور اور عوامی تعاون سے آگے بڑھنے کی جدوجہد کو رواج دیں۔ جماعتی ڈھانچوں میں جمہوریت اور مکالمے کو فروغ دیں۔ لوٹا گردی کی حوصلہ شکنی کریں۔ حالات کیسے بھی ہوں کوئی سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بن کر نظام حکومت کے خلاف کسی سازش میں شریک نہ ہو۔ اس امر پر دو آرا ہرگز نہیں کہ آج بھی اگر ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کا عزم کرلیا جائے تو عوامی جمہوریت کی اس منزل کا حصول ممکن ہے جو سازشوں اور مداخلتوں کی وجہ سے دور تر ہوتی گئی اس کی وجہ سے معاشرے میں جتھے بندی اور بداعتمادی بڑھی۔ اس بد اعتمادی کے خاتمے کیلئے سبھی کو اپنے حصے کا کردار آدا کرنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی