تحقیق کے بغیر رائے کا اظہار کرنا

تحقیق کے بغیر رائے کا اظہار کرنا شرارت ہے

مولانا وحید الدین خان کہتے ہیں کہ 22دسمبر 1985ء کا واقعہ ہے کہ میں کچھ ساتھیوں کے ہمراہ دہلی کا چڑیا گھر (Zoo)دیکھنے گیا۔ مختلف جانوروں کو دیکھتے ہوئے ہم اس مقام پر پہنچے جہاں آہنی کٹہرے کے اندر سفید شیر رکھا گیا تھا۔

خوش قسمتی سے اس وقت شیر اپنے غار کے باہر ٹہل رہا تھا اور زائرین کو موقع دے رہا تھا کہ وہ اس کو بخوبی طور پر دیکھ سکیں۔

میں کٹہرے کے پاس دوسرے زائرین کے ساتھ کھڑا ہوا تھا کہ ایک صاحب کی پرجوش آواز کان میں آئی … ’’ سفید شیر اب دنیا میں صرف ایک یہی ہے، مہاراجہ ریوا کے پاس دو سفید شیر تھے جو انہوںنے آزادی کے بعد گورنمنٹ آف انڈیا کو دیے تھے۔ ان میں سے ایک مر چکا ہے اور ایک باقی ہے جس کو ہم اس وقت دیکھ رہے ہیں۔‘‘

مجھے اس وقت تک اس سلسلہ میں زیادہ معلومات نہ تھیں۔ میں ان کی بات سن کر آگے بڑھ گیا مگر چند قدم چلا تھا کہ کٹہرے کے پاس لگا ہوا بڑا سا بورڈ نظر آیا جس پر چڑیا گھر کے ذمہ داروں کی طرف سے سفید شیر کے بارے میں تفصیلی معلومات درج تھیں۔ یہ معلومات دو زبانوں (انگریزی اور ہندی) میں تھیں۔ میں نے ان کو پڑھا ۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ اس وقت دنیا میں کل 69سفید شیر پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے 25سفید شیر صرف ہندوستان میں ہیں۔ بورڈ کی تحریر میں 69سفید شیروں کی موجودگی کا ذکر تھا اور عین اس کے قریب ایک صاحب یہ اعلان کر رہے تھے کہ دنیا میں اس وقت صرف ایک سفید شیر پایا جاتا ہے اور یہ واحد شیر دہلی کے چڑیا گھر کی ملکیت ہے۔

یہ ایک سادہ سی مثال ہے جو یہ بتاتی ہے کہ لوگ حقیقتوں سے کتنے بے خبر ہوتے ہیں ، اس کے باوجود حقیقتوں کے بارے میں کتنا زیادہ بولتے ہیں۔ آج کی دنیا میں یہ عام مزاج بن گیا ہے کہ آدمی باتوں کی تحقیق نہیں کرتا ۔ اس کے باوجود اس کو اپنا فطری حق سمجھتا ہے کہ وہ ہر موضوع پر بے تکان بولے، خواہ اس کے بارے میں اسے کچھ واقفیت نہ ہو۔

کہنے سے پہلے جانئے۔ اظہارِ رائے سے پہلے تحقیق کیجئے۔ واقفیت کے بغیر بولنا اگرچہ جہالت ہے تو تحقیق کے بغیر رائے کا اظہار کرنا شرارت اور دونوں یکساں طور پر برائی ہیں۔ ان میں اگر فرق ہے تو درجہ کا ہے نہ کہ نوعیت کا۔