تحقیقات او رنظر ثانی کی ضرورت

خیبر پختونخوا کے سرکاری ہسپتالوں کے لئے گزشتہ مالی سال کے دوران 8سو سے زائد ادویات پانچ ارب روپے کی لاگت سے سپلائی کی جارہی تھیں جاری مالی سال کیلئے ادویات کی خریداری کا بجٹ 44ارب روپے سے زائد ہو گیا ہے۔ بڈنگ میں شامل کمپنیوں کے لئے مجموعی طور پر ادویات کے نرخوں میں کم از کم880فیصد کا اضافہ حیرت انگیز طور پر منظور کیاگیا ہے جس سے بجٹ کئی سو گنا بڑھ جائے گاتشویشناک امر یہ ہے کہ اس عمل میںشفافیت کا سرے سے ہی خیال نہیں رکھا گیا ہے بلکہ ٹینڈر کے عمل میں منظور نظر کمپنیوں کو بولی میں شامل کیا گیا اور ان کی دوائیوں کی غیر حقیقی قیمتیں لگائی گئی ہیں اوربہت زیادہ بڑھا چڑھا کر قیمتوں کا تعین کیاگیا ہے۔ایک ایسے وقت جب صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں بنیادی ا دویات ا ور ہنگامی طورپر لگنے والے انجکشنز تک موجود نہیں ایسے میں محولہ قسم کے فیصلے کس بنیاد پر کئے گئے اس کی تحقیقات کی ضرورت ہے ادویات کی قیمتوں کا حقیقی تعین اور گزشتہ سالوں میں ہونے والے اضافے کی شرح اور تناسب کے تناظر میں اس فیصلے کا جائزہ لیاجانا چاہئے اور اگر ضروری ہو تواس فہرست کو منسوخ کرنے کے امکان کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا جانا چاہئے صحت کا شعبہ نئی حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہے وزیر اعلیٰ نے اپنے باضابطہ انتخاب سے قبل ہی صحت کارڈ کی بحالی کا اعلان کرکے اپنی ترجیحات واضح کر چکے ہیں جو اپنی جگہ خوش آئند امر ہے لیکن صرف یہی کافی نہ ہوگا بلکہ علاج و صحت کے شعبے سے متعلق محکمے کے فیصلوں اور اقدامات کابھی ازسر نو جائزہ لینا ہو گا تاکہ جہاں اصلاح اور تبدیلی کی گنجائش ہو وہاں ضروری فیصلے لئے جا سکیںتوقع کی جانی چاہئے کہ نئے وزیرصحت چارج سنبھالتے ہی محولہ فیصلے کے جواز اور پس منظر سے فوری آگاہی حاصل کرکے ایسے اقدامات پر توجہ دیں گے کہ سرکاری خزانے کونقصان اور عوام کی حق تلفی نہ ہو اور اگرفیصلے میں بد دیانتی ثابت ہو تو اس کے ذمہ دار عناصر کااحتساب بھی ہوگا۔

مزید پڑھیں:  مزید کون سا شعبہ رہ گیا ہے ؟