تذلیل کا مبینہ واقعہ اور انتقامی سیاست

وطن عزیزکی سیاست میں انتقام اور مخالفین کی تذلیل کو گویا روا سمجھنے کا رواج ہے ماضی میں اور خود تحریک انصاف کی حکومت میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں لیکن تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے اپنے چیف آف سٹاف کی جس قسم کی تذلیل کا دعویٰ کیا ہے اگر ان کا دعویٰ سچ ہے اور واقعی ان کے پاس شواہد اور ویڈیو ز موجود ہیں تو پھر اس پر بیان بازی اور احتجاج کافی نہیں بلکہ اس کا بہترین فورم ثبوتوں کے ساتھ عدالت سے رجوع ہے ۔ سمجھ سے بالاتر امر یہ ہے کہ اس قدر مبینہ تذلیل کے شواہد تصاویراور ویڈیوز دستیاب کیسے ہوئے اور ان کو حاصل کیسے کیا گیا بہرحال ان سوالات سے قطع نظر جو صورتحال بیان کی جارہی ہے اس کی صداقت پر یقین کرنا اس لئے مشکل ہے کہ اس قدر تذلیل آمیز سلوک کی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے توقع نہیں کی جا سکتی بہرحال یہ ان کی جماعت کے قائدین کا دعویٰ اور ان کا نقطہ نظر ہے جس کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہئے تاکہ سچ عوام کے سامنے آئے اور زیر حراست ملزم کو انصاف ملے ۔ اس مخصوص واقعے سے قطع نظر پاکستان میں سیاسی مخالفین کامکوٹھپنے میں تذلیل کا جو عنصر شامل ہوا ہے اس کا ماضی میں کھلے عام تذکرہ کا رواج نہیں تھا لیکن اب جبکہ اس کا کھلے عام اظہار کرکے عوام کے سامنے لایا گیا ہے تو اب اسے منطقی انجام تک بھی پہنچانے کی ذمہ داری پوری کر لینی چاہئے ۔ بدقسمتی سے ہر حکومت وقت اس امر کا خیال نہیں رکھتی آئی ہے کہ جو کچھ لمحہ موجود میں دوسروں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ بازی پلٹنے پرخود اس کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے معلوم نہیں سیاستدانوں کو کب ہوش آئے گا اس وقت دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ مرکز اور صوبوں میں موجود مخالفانہ حکومتیں ایک دوسرے کے سرگرم حامیوں اور افراد پر سنگین مقدامات کی سعی میں ہیں پنجاب میں جن بارہ مسلم لیگی رہنمائوں کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں کیا اسلام آباد کی حدودمیں اور اڈیالہ جیل میں تشدد وزیادتی کا بدلہ وہاں چکایا جائے گا اور الزام لگانے والے خود قانون سے کھلواڑ کرکے وہاں تذلیل کا بدلہ چکائیں گے یہ خطرناک سلسلہ چل نکالا تو اس کی انتہا نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ اس سے ملک میں جمہوری سیاست جمہوری نظام اور نظام انصاف مزید بدنام ہو اور ہم دنیا کے ممالک کے سامنے مزید شرمسار ہوں جس کسی کے بھی خلاف جوبھی مقدمہ درج ہو اس کی گرفتاری اور تفتیش قانون کے مطابق ہونی چاہئے اور انصاف کے تقاضے پورے ہونے چاہئے جوانتقامی سلسلہ چل نکلا بہتر ہوگا کہ اسے یہیں روک دیا جائے قبل اس کے کہ پورا ملک اس کی لپیٹ میں آجائے اور ہر جگہ و ہر صوبے میں سیاسی مخالفین تختہ مشق بنتے پائے جائیں اور سیاسی مخالفین کو کہیں امان نہ ملے۔
ٹارگٹ کلنگ اور احتجاج
باجوڑمیں پولیس چیک پوسٹ پربم حملہ میں دو اہلکاروں کی شہادت اورمیرانشاہ میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ایک ایسے وقت ہوئے ہیں جب باجوڑ میں امن دھرنا جاری ہے جس میں یہاں کی جماعتیں اور قبائلی عمائدین شریک ہیں علاقہ میں ٹارگٹ کلنگ اور علمائے کرام کونشانہ بنانے کے واقعات پر احتجاج کرنے والے انتظامیہ کے اقدامات سے مطمئن نہیں جس کے خلاف لوگ بستر لیکر پنڈال آگئے ہیں جس سے دھرنا کے طول پکڑنے کا امکان ظاہر ہوتا ہے اس طرح کے واقعات کے خلاف شمالی وزیرستان میں بھی طویل احتجاج ہوتا آیا ہے اور یہاں تک کہ ضلعی انتظامیہ نے اس طرح کے حالات پر قابو پانے میں اپنی بے بسی کا اعتراف بھی کر چکی ہے باجوڑ میں بھی عملی طور پراس طرح کی صورتحال نظر آتی ہے انتظامیہ مفلوج نہ ہوتی تو یہ صورتحال پیش نہ آتی مستزاد یہ کہ جب پولیس اہلکار خود بھی محفوظ نہ ہوں تووہ عوام کو کیسے تحفظ فراہم کر سکتے ہیں شمالی وزیرستان ہو یا باجوڑ اور حال ہی میں سوات کا مخصوص علاقہ ایسا لگتا ہے کہ ہر چند کہ ہے نہیں ہے کے مصداق وہ عناصر موجود ہیں یا پھر ان کے سرپرست اب بھی ان علاقوں میں اتنا اثر رکھتے ہیں کہ وہ ٹارگٹ کلنگ کی واردات با آسانی کر جاتے ہیں اور حیرت انگیز طور پر نہ تو برموقع ان کے خلاف کارروائی ہو پاتی ہے اور نہ ہی ان کے کسی ٹھکانے کا کھوج ملتا ہے پراسرار حالات میں ہونے والے واقعات کی روک تھام میں تاخیر کی اب گنجائش نہیں۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا