تصور پاکستان اور سیاسی قائدین

موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں پاکستان کے تصور پر مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین کے مابین مکالمہ گزشتہ روز پشاور کے نشتر ہال میں منعقد ہوا، اس قسم کے سیمینار کی ایک عرصے سے ضرورت یوں بھی محسوس کی جا رہی ہے کہ سیاسی ماحول میں عدم برداشت اس قدر وسیع ہو چکی ہے اور حالات اس نہج پر جا چکے ہیں کہ بد زبانی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، سیاست میں ہمیشہ سے اختلافات کو صرف سیاسی نظریات کی سطح تک محدود رکھا جاتا تھا مگر گزشتہ کچھ عرصے سے سیاسی مخالف کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کر کے مخالف سیاسی عناصر کو برداشت نہ کرنے کا کلچر جس تیزی سے فروغ پذیر ہوا ہے اس پر افسوس کا اظہار کئے بناء نہیں رہا جا سکتا، بد قسمتی سے اس صورتحال تک آتے آتے ہمیں کئی پڑائو طے کرنا پڑے ہیں، قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی تقسیم ہند کے مخالف رہنمائوں کو بغیر کسی وجہ سے”غداری” کے سرٹیفکیٹ عطا کرکے سیاست سے آئوٹ کرنے کی پالیسی نے جس منفی رویے کی بنیاد رکھی، اس کو بعد میں ان طالع آزمائوں نے زیادہ مضبوط بنیادیں فراہم کیں جنہوں نے بزور اقتدار پر قابض ہو کر جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کر دیں، سیاسی جماعتوں کو کمزور کیا، سیاسی رہنمائوں کو جیلوں میں ڈالا ان پر پابندیاں عاید کر کے اقتدار کو گھر کی لونڈی بناکر رکھا، ان کی غلط پالیسیوں نے ایسے سیاسی کلچر کو فروغ دیا جہاں جمہوری اقدار کے برعکس ذاتی اور خاندانی اقتدار کو دوام بخشا گیا، یوں ملکی سیاست چند مخصوص خاندانوں کے پنجہ استبداد میں جکڑا گیا، اب بھی بہت حد تک ذاتی خاندانی اور موروثی سیاست کا طوطی بول رہا ہے جبکہ ان قائدین کو ماننے والے سیاسی غلام بننے پر مجبور بلکہ آمادہ ہوئے، گزشتہ روز کے سیمینار میں اس ایک اہم نکتے پر بحث کے دوران سیاسی قائدین نے اپنی اپنی سوچ کے مطابق روشنی ڈالتے ہوئے اس صورتحال سے باہر نکلنے پر غور و خوض کیا، تاہم بد قسمتی سے حالات اس قدر گمبھیر ہو چکے ہیں کہ اس پر قابو پانے کی تدابیر کامیابی سے ہمکنار ہونے کے امکانات بہت ہی کم ہیں، جب تک سیاسی قائدین ایک جگہ بیٹھ کر اصولی طور پر سیاسی مخالفین پر گالیوں سے حملہ کرنے،تبرہ تولنے اور سیاسی مخالفت کو صرف سیاست تک محدود کرنے کیلئے رہنماء اصول مرتب نہیں کریں گے، الزام تراشی اور باہم گفت و شنید کے امکانات رد کرنے کا رویہ ترک نہیں کریں گے تب تک یہ سیاسی غلامی اور بد زبانی کا کلچر ختم ہونے کے امکانات روشن نہیں ہو سکیں گے۔

مزید پڑھیں:  اہم منصوبے پرکام کی بندش