p613 228

تصویر کا دوسرا رخ

کرک میں مندر نذرآتش کرنے سے متعلق چند ایک آراء یہ سامنے آئی ہیں کہ مندر جلانے والوں سے جرمانہ لیا جائے، نیز متروک وقف املاک بورڈ کا کردار بھی اقلیتی برادری کی عبادت گاہوں کے حوالے سے ذمہ داریوں سے فرار ہی کا سامنے آیا ہے۔ کرک میں مندر جلائے جانے کے واقعے کو پڑوسی ملک نے جس طرح پیش کیا اور ان کو دل کھول کر تنقید کرنے و الزام لگانے کا موقع ملا وہ فطری امر تھا۔ بھارت کا اس طرح کے واقعات کی تاک میں ہونا اس لئے بھی بنتا ہے کہ خود بھارت میں مسلم اقلیت، سکھوں اور یہاں تک کہ اپنے ہی ملک کے کسانوں کے ساتھ ان کا جو سلوک اس وقت جاری ہے اس سے توجہ ہٹانے اور پاکستان کو مطعون کرنے کے موقع سے فائدہ اُٹھانا، اپنی جگہ لیکن مندر کے تحفظ میں ناکامی اور ایک مشتعل ہجوم کو خونریزی کے خوف سے روکنے کی عدم سعی یا پھر مصلحت کا فرائض منصبی پر غالب آنا، ایسے معاملات نہیںجس کو نظرانداز کیا جاسکے۔ مذکورہ مندر کو اگر خطرہ تھا تو جس طرح اب سو پولیس والوں کو اس کے تباہ حال ڈھانچے کی حفاظت پر مامور کیا گیا ہے کیا ایسا پہلے ممکن نہ تھا، پولیس ہجوم کو کم از کم لاٹھی چارج کرکے روکنے کی کوشش کرتی، آنسو گیس کا استعمال کیا جاتا، ایف سی طلب کرلی جاتی، جلسے کے منتظمین سے موقع پر رابطہ کر کے ان کو باز رکھنے کی ناکام سہی مگر کوشش کی گئی ہوتی، اس کے بعد ہجوم بے قابو ہوجاتا تو کٹہرے میں کھڑی پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے پاس صفائی کیلئے کہنے کو کچھ ہوتا۔ واقعے کے بعد معطلی وسزا کوئی معنی نہیں رکھتے اور نہ ہی آئندہ لاقانونیت کے کسی مظاہرے کی روک تھام کیلئے یہ کسی مثال کا باعث بن سکتا ہے۔ ان تمام معاملات سے قطع نظر بلاشبہ مندر کی تباہی کے ذمہ دار عناصر کیخلاف کارروائی اور ان سے مندر کی تعمیر کے اخراجات کی وصولی کی تجویز نامناسب نہیںلیکن اس کے تحفظ کی ذمہ دار حکومت، ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی پوری طرح ناکامی کیا صرف نظر کرنے والا معاملہ ہے۔ ہمارے تئیں تباہی کے ذمہ دار اور تحفظ میں ناکامی کے ذمہ دار دونوں ہی برابر کے قصوروار ہیں اور ان سے ایک طرح کا سلوک ہی انصاف ہوگا۔ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کیلئے جہاں جہاں اس طرح کے امکانات ہوں وہاں کے عوام کو جید علمائے کرام کے ذریعے اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرنے اور ان کو شعور وآگہی دے کر خلاف دین وشریعت اور خلاف مذہب وقانون عمل سے باز رکھنے کی قبل ازوقت کوششوں پر توجہ کی ضرورت ہے۔ متنازعہ مندر کی تعمیرنو پر علاقہ عوام کو تحفظات تھے تو اس کا انتظامیہ کو ادراک ہونا چاہئے تھے اور اس حوالے سے پیش بندی وغلط فہمیاں دور کرنے کے اقدامات کیساتھ ساتھ خطرے کی صورت میں اس سے نمٹنے کی بھی پوری تیاری کی ضرورت تھی۔ ایسا ہوتا تو ممکن ہے یہ واقعہ ہی رونما نہ ہوتا، اگر انتظامی طور پر تیاری ہوتی، قانون یوں ہاتھ ملتے نہ رہ جاتی۔
آئمہ کیساتھ معذور افراد کا بھی وظیفہ مقرر کیا جائے
خیبرپختونخوا حکومت نے صوبہ بھر کے آئمہ مساجد کو اگلے مالی سال سے ماہانہ اعزازیہ دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ صوبے کے تقریباً 22 ہزار آئمہ مساجد کو 10 ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ دیا جائے گا، ان اعزازیوں پر ماہانہ تقریباً 23کروڑ جبکہ سالانہ ڈھائی ارب روپے سے زائد رقم خرچ کی جائے گی ۔ گزشتہ حکومت نے بھی آئمہ مساجد کو ماہانہ اعزازیہ دینے کا وعدہ کیا تھا مگر اس پر عملدرآمد کی نوبت نہ آسکی اور آئمہ مطالبہ کرتے رہ گئے، موجودہ حکومت اپنی گزشتہ حکومت کے فیصلے کو اگر عملی جامہ پہناتی ہے تو یہ بڑا کارنامہ ہوگا۔ آئمہ مساجد بہر حال کچھ نہ کچھ کمانے اور اکثر کے پاس رہائش کی بھی موزوں جگہ ہوتی ہے، بہر حال حکومت کے پاس اگر اتنی مالی گنجائش ہے تو مضائقہ نہیں لیکن یہ صرف اعلان اور کسی خاص مقصد کیلئے نہیں ہونا چاہئے۔ آئمہ مساجد سے بھی زیادہ ضروری اور تعداد میں کہیں کم معذور افراد صوبہ بھر میں موجود ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں، ان سے ناانصافی یہاں تک ہورہی ہے کہ معذوروں کے کوٹہ پر ان کی بھرتی تک نہیں ہوپاتی۔ صوبائی حکومت اگر آئمہ مساجد کیساتھ ساتھ معذور افراد کا وظیفہ مقرر کرے تو یہ زیادہ موزوں اور بہتر فیصلہ ہوگا۔
چینی کی قیمتوں میں پھر اضافہ
پشاور میں چینی کی قیمتوں کو ایک بار پھر پر لگ گئے ہیں۔ 50کلو بوری کی قیمت میں 200روپے کا اضافہ ہو گیا ہے ۔ مارکیٹ میں چینی پرچون پر 90 روپے کلو میں دستیاب ہے۔ مارکیٹ ذرائع کے مطابق آنے والے دنوں میں چینی کی قیمت میں مزید اضافہ کا امکان ہے۔ بارہ دسمبر 2020 کو چینی سستی ہونے پر وزیراعظم نے اپنی اقتصادی ٹیم کو مبارکباد دی تھی، چند ہی دنوں بعد چینی دوبارہ مہنگی ہوگئی۔یوٹیلیٹی سٹورز پر ملنے والی سستی چینی اس قدر باریک اور مٹھاس اتنی کم ہے کہ اس کے مقابلے میں مارکیٹ میں ملنے والی مہنگی چینی کو گاہک ترجیح دینے لگے تھے۔ چینی پہلے سے مہنگی تھی اب مزید مہنگائی کے پس پردہ کیا عوامل ہیںحکومت کو اس کا فوری جائزہ لینا چاہئے۔ شوگر مافیا کیخلاف جو تحقیقات کی گئی تھیں اور جو سفارشات مرتب کی گئی تھیں ان کا ازسرنو جائزہ لینے اور اس حوالے سے اقدامات ناگزیر ہیں، جب تک مافیا اور منڈی کو یرغمال بنانے والے عناصر کیخلاف ٹھوس بنیادوں پر کارروائی نہیں ہوگی چینی کی قیمتوں میں کمی نہیں آسکتی۔

مزید پڑھیں:  اسرائیل حماس جنگ کے 200دن