p613 80

تنازعہ کشمیر اور وزارت خارجہ سے توقعات

اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب نے بھارت کے غیرقانونی زیرقبضہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال اور فوجی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایسے اقدامات سے گریز کرنے کو کہا جن سے صورتحال میں بگاڑ پیدا ہو۔ ادھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل میں ایک سال کے دوران تین بار مسئلہ کشمیر زیر بحث آنے سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ کشمیر نہ صرف عالمی مسئلہ ہے بلکہ مہذب دنیا کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر گہری تشویش ہے۔ جمعرات کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں حکومت اور حزب اختلاف نے دو ٹوک انداز میں کشمیری عوام سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کرتے رہیں گے۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال ہر گزرنے والے دن کیساتھ بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حالات میں بھارت کیساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ گزشتہ روز ہی با اثر امریکی سینیٹر اور خارجہ تعلقات کمیٹی کے رکن نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر خاموش نہیں رہا جاسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت مذاکرات اقوام متحدہ کے منشور اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں ہونے چاہئیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ 5اگست 2019ء کے بھارتی اقدام کے بعد مقبوضہ کشمیر میں صورتحال روزبروز بگڑتی جا رہی ہے یہ بجا ہے کہ پچھلے ایک سال کے دوران سلامتی کونسل میں تنازعہ کشمیر تین بار زیربحث آیا اور تینوں بار عالمی ادارے نے مسئلہ کشمیر پر اپنی قرار دادوں پر عمل پر زور دیا لیکن یہ امر بھی کسی سے مخفی نہیں کہ بھارت کی مودی سرکار کو کسی عالمی ادارے کا لحاظ ہے ناانسانی حقوق کی پاسداری اس کے نزدیک ضروری ہے۔ جارح قوت کے طور پر پچھلے بہتر برسوں میں عموماً اور گزشتہ ایک سال کے دوران خصوصی طور پر بھارتی حکومت نے اپنے زیر قبضہ کشمیر میں عوام کیساتھ جو برتائو کیا انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں’ تشدد’ نسل کشی’ گرفتاریاں اور خواتین کی عصمت دری کے سینکڑوں واقعات یہ سب اس امر کو دو چند کرتے ہیں۔ سفاک اور انسانیت و امن دشمن بھارت قبضہ گیری کے جنون کو دھرم بنائے کسی کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اقوام کی برادری کے بااثر ممالک اور عالمی اداروں کی ڈھل مل پالیسی نے بھارت کو کھل کھیلنے کے مواقع دئیے۔ سیاسی ومعاشی مفادات سے بھارت کیساتھ بندھے بااثر ممالک کی خاموشی معاملات کو بگاڑنے کا باعث بنی۔ عالمی برادری نے کشمیر کی صورتحال کو اپنے یہاں جانوروں کے حقوق کیلئے موجود حساسیت جتنا اہم بھی نہیں سمجھا۔ اپنے داخلی و خارجی مسائل کے باوجود پاکستانی ریاست اور عوام نے اپنے کشمیری بھائیوں کی حمایت میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔ پاکستان کی کشمیری عوام اور ان کی آزادی کیلئے نیک تمنائیں کبھی سرد نہیں پڑیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک بااثر ممالک اور ادارے تنازعہ کشمیر کے حوالے سے مؤثر کردار ادا کرنے کی پالیسی نہیں اپناتے بھارتی جارحیت اور کشمیریوں کی نسل کشی کا سلسلہ بند نہیں ہوسکتا۔ جمعرات کو پارلیمان میں مسئلہ کشمیر پر حکومت اور اپوزیشن کا ہم آواز ہونا خوش آئند بات ہے اس سے بھی زیادہ اہم یہ اعلان ہے کہ موجودہ حالات میں بھارت کیساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی ممکن نہیں۔ سیکولر بھارت نے ہندو توا کی طرف تیزی سے سفر کرتا بھارت تو سیع پسندانہ جنون اور طاقت کے شرمناک مظاہروں میں مصروف ہے ان حالات میں صرف اور صرف عالمی دبائو ہی کسی طور بہتری لانے یا کم ازکم تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کروانے میں معاون و مدد گار ہوسکتا ہے۔ یہاں غورطلب امر یہ ہے کہ کیا پچھلے ایک سال کے دوران ہماری وزارت خارجہ نے عالمی برادری کی ہمنوائی کے حصول کیلئے وہ ضروری اقدامات اُٹھائے جو از بس ضروری تھے؟ یہ بجا ہے کہ سال بھر میں 6ماہ تو کورونا وبا کا سامنا کرنے اور تدارک کے اقدامات کرتے گزر گئے پر یہ بھی حقیقت ہے کہ کہیں بھی امور مملکت بند نہیں ہوئے، وزارت خارجہ کو محدود پیمانے پر سہی دنیا میں کشمیر مشن بھجوانے چاہئیں تھے۔ کشمیری تحریک مزاحمت کے دوران کشمیریوں کے جانی ومالی نقصان کیساتھ موجودہ حالات سے تفصیل کیساتھ اقوام کی برادری انسانی حقوق کی تنظیموں اور دیگر اداروں کو آگاہ کرنا چاہئے تھا۔ مسلم امہ کے فورم او آئی سی کو فعال کرنے کی حکمت عملی اپنائی جانی چاہئے تھی۔ یہ سب کیا گیا ہوتاتو آج ہمیں دوست ممالک سے یہ نہ کہنا پڑتا کہ وہ فیصلہ کریں کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہیں یا نہیں۔ اندریں حالات اس امر کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ وزارت خارجہ کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنی اب تک کی کارکردگی کا بغور جائزہ لیکر آنے والے دنوں کیلئے مؤثر حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ اس کی ابتداء چاروں صوبوں کے دارالحکومتوں میں صحافیوں اور اہل دانش کو بریفنگ سے کی جائے۔ پارلیمان کا کشمیر کے
حوالے سے خصوصی مشترکہ اجلاس بلایا جائے۔ اسی طرح پاکستان او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلانے کے علاوہ سربراہی کانفرنس بلوانے کیلئے دوست ممالک سے تعاون حاصل کرے۔ بھارت کی انسانیت کشی پر مبنی پالیسیوں کا جواب محض چند بیانات اور تقریریں ہرگز نہیں، دنیا کو بھارت کا گھنائونا چہرہ دکھانے کیلئے جن اقدامات کی ضرورت ہے ان کے اُٹھائے جانے میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ مؤثر ترین اقدامات اور عالمی سطح پر سفارتکاری سے مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کرکے ہی بھارتی ظلم وجبر کا شکار کشمیری عوام کو یہ پیغام پہنچایا جاسکتا ہے کہ پاکستان اپنے اخلاقی’ سفارتی’ سیاسی فرائض سے کسی بھی طور غافل نہیں ہے۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار