2 321

تنقید آسان۔۔ مگر اصلاح مشکل

ایک دفعہ ایک مصور نے بڑی خوبصورت تصویر بنائی، اس تصویر میں بظاہر کوئی کمی نہیں تھی، اسے سوفیصد یقین تھا کہ اس تصویر سے نہ صرف اس کے دن پھریں گے بلکہ ہر طرف اس کی شہرت کا ڈنکا بھی بجے گا۔ وہ اس پر اتنا نازاں تھا کہ اس نے وہ تصویر شہر کے چوک میں لٹکا دی اور ساتھ نیچے لکھ دیا کہ اگر اس تصویر میں کوئی نقص ہے تو دیکھنے والے وہاں نشان لگا دیں۔ دوسری صبح جب مصور پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران وپریشان ہوگیا کہ ساری تصویر پر جگہ جگہ نشان لگے ہوئے تھے اور ساری تصویر کا بیڑا غرق ہوگیا تھا۔ وہ سخت پریشان ہو کر اپنے استاد کے پاس آیا اور اپنی پریشانی بیان کی، استاد نے اس سے پوچھا ”کیا تمہارے پاس ایسی دوسری تصویر موجود ہے”
مصور کہنے لگا ” ہاں اس کی دوسری کاپی موجود ہے” اُستاد کہنے لگا ”اس دوسری تصویر کو چوک میں اسی جگہ لٹکا دو اور نیچے لکھ دو کہ اگر کوئی اس تصویر میں کچھ بہتری کر سکتا ہے تو وہ کردے” مصور نے اگلے دن وہ تصویر پھر چوک میں لٹکا دی، دوسری صبح جب وہ پہنچا تو دیکھا وہ تصویر بالکل اسی طرح موجود تھی۔ اس سے معلوم یہ ہوا کہ کسی پر تنقید کرنا انتہائی آسان مگرکسی کا اصلاح یا مسائل کا حل دینا انتہائی مشکل کام ہے۔ مجھے انتہائی افسوس اور دکھ کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہیہاں ایک دوسرے میں خامیاں دھونڈنا اور انہیں بڑھا چڑھا کر پیش کرنا لوگوں کا ایک پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نقطہ چینی اور تنقیص اور عیب جوئی اور تنقید بہت زیادہ عام ہے اور اسی قدر محبت کی کمی اور قلت ہے۔ اس منفی طرزعمل سے کسی فائدے کے بجائے نقصان ہی نقصان ہوتا ہے کیونکہ یہ بجائے اصلاح کے بگاڑ پیدا کرتا ہے اور اس سے کمزوریاں تو وہی کے وہیں رہ جاتی ہیں جبکہ فریقین کے تند وتیز جملوں کے باعث غیراخلاقی جنگ کی ایک کیفیت ضرور پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ کسی بھی نوعیت کے تعلقات اور ماحول میں بگاڑ اور خرابی پیدا کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے اور اس سے مثبت اور خاطرخواہ نتائج کی توقع رکھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ لوگوں کے روشن پہلو کو تلاش کرنے کی عادت ڈالیں۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ وہ خودبخود اپنی کمزوریوں اور عیوب کا اعتراف کر کے آپ کے گرویدہ بن جائینگے۔ ایک کامیاب بزنس مین اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ”شروع میں جب اس نے یہ رویہ اختیار کیا تو اسے ابتدا میں کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ لوگوں کی خامیوں کو تلاش کر لیتا اور ان کو بتا دیتا کہ ان کے کام میں کیا کیا خامیاں اور عیوب ہیں۔ نتیجے کے طور پر لوگوں نے اس فعل پر شدید ناگواری کا اظہار کیا حالانکہ اس کا ارادہ ان کی دل آزاری کرنا ہرگز نہیں تھا بلکہ وہ چاہتا تھا کہ میں اس خامی کو دور کرنے کا متمنی تھا۔ تب اس نے اپنے ایک ہر دلعزیز دوست سے مشورہ کیا جس نے بتایا کہ لوگوں سے معاملات کرتے وقت ہمیشہ ان کی ذاتی خوبیوں کو تلاش کرنے کی عادت ڈالو اور پھر ان کی تعریف اور حوصلہ افزائی کرو، جب اس نے اپنے دوست کے اس مشورے پر عمل کیا تو اس کے خاطرخواہ نتائج ملے۔”
آپ نے انڈریو کارنیگی کا نام ضرور سنا ہوگا یہ آمریکہ کا ایک کامیاب ترین اور امیرترین بزنس مین تھا۔ وہ 1920 کی دہائی میں سٹیل کنگ مانا جاتا تھا، اس وقت وہ دنیا کا امیرترین آدمی تھا، اس کی فیکٹری میں جو سٹیل بنتا تھا وہ دنیا کا بہترین سٹیل تھا۔ ایک انٹرویو میں ان سے پوچھا گیا ”آ پ لوگوں سے معاملات کیسے طے کرتے ہیں؟ ان کا جواب تھا ”میرا لوگوں سے معاملات طے کرنا سونے کی کھدائی کا کام جیسا ہے۔ پوچھا گیا ”مگر کیسے؟” انہوں نے اس موقع پر اپنے جواب میں جو شاندار الفاظ کہے، وہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ انہوں نے بتایا ”سونا تلاش کرنے کیلئے ٹنوں مٹی ہٹانی پڑتی ہے تب جاکے کہیں ایک تولہ سونا ملتا ہے۔ لوگوں کی خامیوں کو نظرانداز کرکے ان میں صرف خوبیاں تلاش کرتا ہوں۔ لوگوں کی خامیاں ٹنوں میں ہیں۔ انہیں ہٹاتے ہٹاتے تھک جاؤں گا مگر حاصل کچھ بھی نہیں ہوگا۔” سچی بات یہ ہے کہ یہ طریقہ زیادہ مؤثر ثابت ہوا ہے اگر آپ لوگوںکو یہ اطمینان دلائیں کہ ان کی ذات میں بہت سی خوبیاں ہیں۔ آپ ایک دو کی نشاندہی بھی کریں اور پھر دیکھیں گے کہ وہ خود اس بات کا اعتراف کریں گے کہ ان میں فلاں فلاں خامیاں اور کمزوریاں بھی ہیں۔ نہ صرف اپنی ذات میں بلکہ اپنے شعبے سے متعلق بھی وہ چند کمزوریوں کی خود نشاندہی کردیں گے لیکن ہم اپنی جھوٹی انا کا بھرم رکھتے ہوئے کسی کو سراہنا یا اس کی تعریف کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ہماری فطرت ہے کہ عام طور پر مثبت رویہ اپنانے کے بجائے تنقیدی رویہ اختیار کرتے ہیں جو تعلقات میں بگاڑ کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ یاد رکھیں! بے عیب صرف اللہ کی ذات ہے اور ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خامی ہے۔ ہم پر واجب ہے کہ ہم ایک دوسرے کو ان خامیوں کیساتھ ہی قبول کریں، ہم سب میں کوئی ناکوئی عیب ہے، پھر کیوں نا ہم اپنے عیبوں کیساتھ، ایک دوسرے کی خامیوں اور خوبیوں کو ملا کر اپنی اپنی زندگیوں سے بھرپور لطف اُٹھائیں۔ ایک دوسرے کو اسی طرح قبول کریں کہ ہماری خوبیاں ہماری خامیوں پر پردہ ڈال رہی ہو۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟