توانائی اور پائیداری

ملک میں جیسے ہی سردیوں کا آغاز ہوا تو کئی شہروں میں قدرتی گیس کی لوڈشیڈنگ بھی شروع ہو گئی اور شہریوں کو اپنے زندگیوں میں ایک نئے مسئلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گیس کی فراہمی میں اس تعطل کی بنیادی وجہ نومبر سے فروری تک اس کی طلب میں اضافہ ہونا ہے کیونکہ اس عرصے میں رہائشی علاقوں میں بھی ہیٹرزو گیزرز وغیرہ کا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں قدرتی گیس کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں جب کہ نہ صرف صنعتی بنیادوں پر بلکہ شہری مراکز کی آبادی میں اضافے سے بھی گیس کی طلب بڑھ رہی ہے۔
گیس کے پیداواری ممالک سے پائپ لائنوں کے ذریعے یا مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی درآمد جیسے کئی آپشن متبادل ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں لیکن یہ بہت مہنگا آپشن ہے۔ اسی طرح گیس کے ذخائر کی تلاش بھی ایجنڈے پر ہے اور پاکستان یقیناً بڑے ذخائر کی تلاش کا جائزہ لے سکتا ہے لیکن یہ ایک طویل مدتی آپشن ہے۔ مختصر بنیادوں پر آپشن یہی ہے کہ قدرتی گیس کے متبادل ایسی توانائی ہو جو شفاف، ماحول دوست اور ملک کے عوام کی اکثریت کے لئے مالی لحاظ سے قابل برداشت ہو۔ اس تناظر میں شمسی اور پون بجلی گھروں جیسے قابل تجدید توانائی کے ذرائع ہی پاکستان کی موجودہ صورت حال میں موافق آتے ہیں جن سے نہ صرف ملک بھر میں بجلی کی پیداواری صلاحیت بڑھائی جا سکتی ہے بلکہ ملک کے قیمتی زرمبادلہ کی بچت بھی ہو سکتی ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک گھریلو استعمال کی اشیاء اور نقل و حمل کے لئے مکمل طور پر بجلی کے استعمال کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ یہ تصور توانائی کی مستقبل کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ایک قابل عمل لائحہ عمل کے طور پر ابھر رہا ہے۔ ہمارے برابر بھارت اور سری لنکا جیسے علاقائی ممالک کے پاس تو قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہی نہیں ہیں، اسی طرح بہت سے ترقی یافتہ ممالک گھریلو، کمرشل بنیادوں پر استعمال اور نقل و حمل کے لئے شمسی توانائی کی پیداوار میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں کیونکہ قدرتی گیس ہائیڈرو کاربن بھی ہے جو ماحول کو متاثر کرتی ہے اور بدترین موسمیاتی تبدیلی کا باعث بن رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب دنیا کاربن کے بڑھتے ہوئے اخراج اور موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اور تباہ کن اثرات سے خود کو بچانے کے لئے ماحول دوست توانائی کے استعمال کی جانب بڑھ رہی ہے کیونکہ کاربن کے اخراج اور موسمیاتی تبدیلی ناگہانی آفات کا باعث بن چکی ہیں جس سے نہ صرف بڑے پیمانے پر اموات ہوئی ہیں بلکہ بنیادی ڈھانچہ اور معیشت بھی تباہ ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی ہدف سیون میں بھی سب کے لئے سستی، قابل اعتماد، پائیدار اور جدید توانائی تک رسائی یقینی بنانے سے متعلق مربوط کوششوں پر توجہ مرکوزکی گئی ہے۔ اگرچہ دیر سے ہی لیکن درست طور پر حکومت پاکستان نے بھی شمسی توانائی کے منصوبوں سے قابل تجدید توانائی کی پیداوارکا لائق تحسین اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، جو پاکستان کے لئے توانائی کے مسئلے کے پائیدار حل کا سب سے مناسب ذریعہ ہے۔ نیشنل ٹرانس میشن اینڈ ڈس پیچ کمپنی کے تیار کردہ کیپسٹی ایکس پینشن پلان 2020 ء کے تحت پاکستان 2030 ء تک اپنی بجلی کی پیداواری صلاحیت 57 گیگا واٹ تک بڑھائے گا۔ اس کے لئے ملک کو 2030 ء تک نئے بجلی گھروں کے قیام پر تقریباً 32 ارب ڈالر خرچ کرنا پڑیں گے۔ پلان کے تحت مستقبل کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی غرض سے قابل تجدید توانائی کا فروغ ماحولیاتی لحاظ سے موافق متبادل کے طور پر بھی زیرغور ہے۔
چند ماہ قبل وزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں شمسی توانائی کے 10 ہزار میگاوٹ کے منصوبے شروع کرنے کی باقاعدہ منظوری دی ہے، اس منصوبے سے مختصر مدت میں بڑے پیمانے پر ملکی و غیرملکی سرمایہ کاری راغب ہوگی جبکہ توانائی کمپنیوں اور صنعتی یونٹوں سمیت نجی شعبوں کی شمسی توانائی کے پلانٹس لگانے کے حوالے سے حوصلہ افزائی بھی ہوگی۔کہا جاتا ہے کہ اگر یہ رحجان پنپ گیا اور سرمایہ کاری کی مؤثر پالیسی کے قیام، ٹیکس رعایت اور بینکوں سے مالی اعانت کی سہولت سمیت مزید اقدامات کئے جاتے ہیں تو مستقبل میں ملک اندر مختلف سولر انرجی پارکس نظر آئیںگے۔
ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری آنے سے شمسی توانائی کے پلانٹس کا قیام، ہنرمند افرادی قوت کی تیاری، زر مبادلہ کے ذخائر کی بچت جیسے بے پناہ معاشی فائدہ حاصل ہوں گے۔ بلاشبہ پالیسی اقدامات کے علاوہ ماحول دوست توانائی میں غیرملکی سرمایہ کاری راغب کرنے کا سب سے اہم عنصر ساز گار ماحول اور کاروبار کرنے میں آسانی سمیت مربوط اقدامات کے ذریعے سرمایہ کاروں کو تحفظ کی فراہمی ہے۔ حکومت کو توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کا سنگین مسئلہ حل کرنا چاہئے، اسی طرح بجلی گھروں کو ادائیگیوں سے متعلق شکایات کا ازالہ بھی ضروری ہے۔ اگر موجودہ بجلی گھر مالی لحاظ سے مضبوط اور مکمل طور پر فعال ہو جائیں تو توانائی کا شعبہ ملک میں بڑے پیمانے پر ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری راغب کر سکتا ہے۔ اس سرمایہ کاری کے بالآخر صارف پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے متوازی قابل تجدید توانائی کے فروغ سے بھی مجموعی رسد میں بہتری آئے گی۔ چنانچہ شہریوں کی سماجی و اقتصادی بہبود کے لئے سرمایہ کاری کے لئے مثبت ماحول ناگزیر ہے۔
(بشکریہ ، بلوچستان ٹائمز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  پولیس کی بروقت کارروائی اور تشدد