تھا منیر آغاز سے ہی راستہ اپنا غلط

اخلاقی اور سیاسی انحطاط جب باہم بغل گیر ہو جائیں تو معاشروں کو اندر ہی اندر گھن لگ جاتی ہے اور انہیں کھوکھلا کر دیتے ہیں ‘ یہ الگ بات ہے کہ انسانیت سے گندھے ہوئے اصول ایسے معاشروں کو تنزلی کی عمیق گہری کھائیوں میں مکمل طور پر غرق ہونے سے بچانے میں مدد گار ہوتے ہیں اور منفی رجحانات سے بچانے کے لئے کچھ کردار اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے عقل و فہم ‘ سوجھ بوجھ اور صبر و تدبر سے کام لیکر عظمت انسانی کا احساس دلاتے ہیں ‘ یہ الگ بات ہے کہ اچھے کردار کا مظاہرہ کرنے والوںپر منفی تبصرے کرنے والے اپنے ”ظرف” کا اظہار کرنے سے پھر بھی باز نہیں آتے ‘ بدقسمتی سے ہماری سیاسی فضا پر ان دنوں جن منفی رجحانات کا غلبہ ہے اس صورتحال میں اگر کوئی مثبت اقدام نظر آتا ہے تو مایوسی کی کوکھ میں سے روشنی کی کرن پھوٹنے کا خوش کن احساس مشام جاں کو سرشار کر دیتا ہے ‘ لیکن بعض حلقوں کو یہ صورتحال بھی گراں گزرتی ہے حالانکہ احمد فراز نے بھی یہی کہا تھا کہ
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
وفاقی وزیر احسن اقبال نے اپنے ساتھ چار پانچ روز پہلے ہوئے نامناسب سلوک پر کسی منفی ردعمل کا اظہار کرنے اور بعض قریبی حلقوں کی جانب سے انہیں منفی رویئے کی زد پررکھنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کی ترغیب دینے کے مشورے پر عمل نہ کرنے کا سادہ سا جواب یہ کہہ کر دیا کہ ان کے خلاف منفی نعرے لگانے والی خواتین اور بچیاں ہیں اور یہ کہ ہر کسی کو اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہے ‘ فی زمانہ ایسے مثبت رویئے کی توقع کسی سے بھی کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا حالانکہ اس واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر دوطرفہ طوفان اٹھ کھڑا ہوا تھا ایک توو ہ لوگ جواحسن اقبال کے خلاف ایک خاتون اور اس کی بچیوں کی جانب سے اختیار کئے جانے والے رویئے پر بغلیں بجا بجا کر اس اقدام کو درست قرار دے رہے تھے کہ ان لوگوں کی ایک خاص ڈھب پر کی جانے والی ”سیسی تربیت” اسی بات کی متقاضی ہوتی ہے کہ اپنے ساتھیوں کی بھی مزید حوصلہ افزائی کی جائے ‘ تاہم اس واقعے کے بعد دوسری جانب احسن اقبال کے حامی حلقوں کے علاوہ عام سوشل میڈیا صارفین نے بھی اس پر احتجاج کیا اور منفی رویہ اختیار کرنے والے خاندان کو آڑے ہاتھوں لیا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا جس میں کسی”سیاسی” ٹارگٹ کو آسان سمجھتے ہوئے نعرے بازی کی گئی اور وہ بھی پبلک پلیس پر ‘ قارئین کویقینا یاد ہو گا کہ جن دنوں تحریک ا نصاف کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تیاریاں ہو رہی تھیں اور تحریک کے بعض ارکان اسمبلی”منحرف” ہو گئے تھے تو اسلام آباد کے ایک ریسٹورنٹ میں بعض منحرفین پر ایک ”بزرگ” نے آواز کسے اور نازیبا الفاظ سے انہیں یاد کیا پہلے تو انہوں نے بزرگ کو سمجھ کر در گزر کیا مگر وہ بزرگ نے اپنی بزرگی کا خیال نہ کرتے اور مقابل کو ”کمزور” سمجھتے ہوئے ”حملے” جاری رکھے تو پھر ان کا جو حشر ہوا اسے بھی ٹویٹراور فیس بک پر ایک دنیا نے دیکھ لیا بہرحال تازہ ”واردات” میں کم از کم احسن اقبال نے خواتین کو ” جاچھوڑ دیا حافظ قرآن سمجھ کر ”جواب دینے یا پھر بعد میں کسی ردعمل کے اظہار سے انکار کرکے اپنی خاندانی تربیت کا احساس ضرور دلا دیا حالانکہ اسلام آباد والے واقعے میں نور عالم خان اور دیگر ایم این ایز کو ”بزرگ” نے جس طرح منفی رویئے کا شکار کرنے کی کوشش کی تھی اس کے بعد ایک خاص سیاسی جماعت کے عام ٹرولز نے اپنا رویہ ہی بنا لیا کہ جہاں کوئی سیاسی مخالف نظر آیا منیر نیازی کے اس شعر پر عمل درآمد شروع کر دیا کہ
عادت سی بنا لی ہے ‘ تم نے تو منیر اپنی
جس شہرمیں بھی رہنا ‘ اکتائے ہوئے رہنا
ان سیاسی ٹرولز کے حوالے سے اگرچہ شعر کے دوسرے مصرعہ میں اکتائے کی جائے ”بولائے” زیادہ مناسب لگتا ہے کیونکہ جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے چور ‘ چور ‘ ڈاکو وغیرہ کے نعرے لگ جاتے ہیں تو ایک خاص طبقہ”سیاسی مخالفین” کے خلاف بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر بغلیں بجانا شروع کر دیتا ہے اس صورتحال میں ایک وی لاگر رضی دادا کا یہ جملہ یاد آجاتا ہے جنہوں نے کہا تھا کہ لمحہ موجود میں یہ جو کچھ خود کر رہے ہوتے ہیں انہی لمحات میں یہ اس کا الزام دوسروں پر لگاتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جب سے سابقہ حکومت کے دور کی چوریاں ‘ ڈکیتیاں وغیرہ وغیرہ سامنے آرہی ہیں اتنی ہی سرعت کے ساتھ یہ اپنے مخالفین پر چوری ‘ بدعنوانی ‘ ڈکیتیاں وغیرہ وغیرہ سامنے آرہی ہیں اتنی ہی سرعت کے ساتھ یہ اپنے مخالفین پر چوری ‘ بدعنوانی وغیرہ وغیرہ کے الزامات لگاتے رہتے ہیں بالکل اس چور کی طرح جو ” چور ہے چور ہے ” کے نعرے لگاتے ہوئے چور کے پیچھے بھاگنے والوں کے ہجوم میں شامل ہو کر بغلی گلی سے نکل جاتا ہے ‘ تاہم اب کی بار ایسا ممکن نظر نہیں آتا اور چوریوں کا سراغ بالآخر ملنے کی امیدیں روشن دکھائی دے رہی ہیں خیر بات ہو رہی تھی احسن اقبال پر آواز کسنے والیوں اور موصوف کے ردعمل کی جس نے بالآخر متعلقہ خاندان کو احساس دلا دیا کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ درست رویہ نہیں تھا یوں وہ خود چل کر احسن اقبال کے گھر آکر معذرت خواہ ہونے پرمجبور ہوئے حالانکہ گزشتہ روز جولوگ ان محترمہ اور ان کی صاحبزادیوں کے احسن اقبال کے خلاف اختیار کئے ہوئے رویئے پر خوشی کا ا ظہار کرتے ہوئے ان کو ہلا شیری دے رہے ہیں ان کے ”یوٹرن لیتے ہوئے” معذرت خواہانہ رویئے پراب انہی خواتین کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں جبکہ جو لوگ اس رویئے کی تکذیب کر رہے تھے اب وہ نہ صرف ان خواتین کی تعریف کر رہے ہیں بلکہ احسن اقبال کے ان خواتین کو اپنے گھر آنے اور ان سے معذرت کے حوالے سے جوابی احسن رویئے کو بھی سراہ رہے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ متعلقہ خاندان نے اگر معذرت کی ہے تو اس رویئے کو خوش آمدید کہنا چاہئے کسی کے بھی غلط رویئے سے رجوع کرنا بھی بڑا پن ہے اور اب ملکی سیاسی فضا میں جاری نفرتوں اور کدورتوں والے رویوں کو خیر باد کہنے کا وقت آگیا ہے سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی بنا کر ہم اپنے ملک کی خدمت نہیں کر سکتے ۔گزشتہ چار سال کے دوران تمام تر حکومتی اداروں کی انتھک کوششوں کے باوجود مخالفین پر کوئی الزام ثابت نہیں کر سکے بلکہ الزامات جھوٹ ثابت ہونے کے خود ہی گواہ بن رہے ہیں ‘ ان کے لئے بہتر ہے کہ اپنا رویہ بدل کر مثبت انداز اختیار کریں۔
تھا منیر آغاز سے ہی راستہ اپنا غلط
اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند