تھوک اور پھونک کے چکر میں الجھا ہوا بھارت

ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بھارت کا معاشرہ مجموعی طور پر غیر فرقہ وارانہ اور وسیع القلبی کا چلتا پھرتا اشتہار ہوجس کا ثبوت تاریخ کے ہر دور میں اقلیتوں کے خلاف پھوٹ پڑنے والے فسادات ہیں ،جن میں اکثر مسلمان اقلیت ہی نشانہ بنتی رہی ہے، مگر ہر متنوع معاشرے کی طرح یہاں جیو اور جینے دو کا اصول کسی حد تک کارفرما رہا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارت اپنے تنوع کے باوجود ایک سخت گیر ہندو توا مائنڈ سیٹ کا اسیر اور غلام بنتا جا رہا ہے۔جوں جوں یہ ذہنیت فیصلہ سازی پر حاوی اور سیاسی میدان میں طاقتورہوتی جا رہی ہے ،اسی انداز سے اقلیتوں کے لئے سانس لینے کی آزادی کا دائرہ سمٹتا چلا جا رہاہے۔عوامی سطح پر نفرت کا ایک لاوا پھوٹ پڑا ہے جو زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہوتا جا رہا ہے ۔گزشتہ دنوں پیش آنے والے چند واقعات نے معاملہ کی سنگینی کو اور گہرا کیا ۔بھارت کی مشہور گلوکارہ لتا منگیشکر کی چتا پر بالی ووڈ کے سٹار شاہ رخ خان نے کچھ دعائیہ کلمات پڑھنے کے بعد پھونکا تو سوشل میڈیا پر یہ سوال اُٹھا کہ شاہ رخ خان نے چتا پر پھونکا یا تھوکا؟شاہ رخ خان کی ایک پھونک سے بات کا بتنگڑ بن گیا اور یوں اس پر کئی دن مختلف زاویوں سے بحث ہوتی رہی ۔کچھ لوگوں کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اگر شاہ رخ خان نے لاش پر پھونکا بھی ہے تو انہیں کس نے یہ حق دیا ہے۔شاہ رخ خان نے اپنائیت اور وفاداری کے اظہار کے لئے محض دومنٹ کی خاموشی کی بجائے پوری مذہبی رسم وریت نبھانے کا کام کیا تھا، مگر یہ کام ان کے گلے ہی پڑگیا اور ہندو انتہا پسند ان کا گریبان پھاڑنے لگ گئے ۔مسلمان اپنی وفاداری کے جس قدر مظاہرے کریں کرتب اور تماشے دکھائیں، ہندوتوا مائنڈ سیٹ کی جان چھوڑتا نظر نہیں آتا۔تھوک اور پھونک کا یہ تنازعہ ابھی جا ری ہی تھا کہ کرناٹک کے گورنمنٹ سکول کا واقعہ ہوگیا ۔جس میں طالبات کو حجاب کرنے سے روکنے کی ایک مہم جو پہلے ہی چل رہی تھی ایک مخصوص واقعے سے عالمگیر توجہ حاصل کر گیا تعلیمی اداروں میں حجاب کو متنازعہ بنانے کا کام بھی ہندو توا مائنڈ سیٹ سے لیا گیا ۔حجاب جوہندوستان کے مسلمان سماج میں معمول کا لباس اور لباس کا حصہ ہے ،اچانک تنازعات کی زد میں آگیا ۔مسلمان خواتین کو اپنے لباس کے دفاع کے کام میں اُلجھا دیا گیا۔یہاں تک کہ ان طالبات کو عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔بھارت کی عدالتیں اب میرٹ پر کم ہی فیصلے دیتی ہیں ۔یوں لگتا ہے کہ بھارت کی عدلیہ بھی ہندو توا مائنڈ سیٹ سے یا تو متاثر ہو چکی ہے یا اس کے دبائو میں فیصلے سنانے کی راہ پر چل پڑی ہے ۔نو برس پہلے بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت نے کشمیری حریت پسند افضل گورو کو عوامی ضمیر کو مطمئن کرنے کی خاطر سزا سناکر عوامی دبائو اور عوام کو خوش کرنے کا ایک” نظریہ ضرورت” تراشاتھا اب بھارت کی عدلیہ اسی نظریہ ضرورت کو مستقل نظریہ بناتی ہوئی نظر آتی ہیں۔حجاب کے مسئلے میں عدالتی گومگوں کی پالیسی ابھی تک جاری ہے ۔اس دوران کرناٹک کے کالج میں ہندو بلوائی طلبہ کے ہاتھوں ستائی ہوئی ایک دھان پان سی لڑکی مسکان جرأت اور بہادری کا ایک استعارہ بن کر سامنے آئی ۔طالبہ نے جب اپنا موٹر سائیکل پارکنگ میں کھڑا کیا تو پہلے سے موجود صحافیوں کا کیمرہ ان پر نظریں گاڑھے ہوئے تھا کیونکہ کیمرہ مین کو انداز ہ تھا کہ مسکان نے جس راہ میں پیدل چل کر جانا ہے وہاں نارنجی پٹیاں گلے میں ڈالے انتہا پسند وں کا ہجوم جے شری رام کے نعرے لگاتا ہوا ان کا منتظر ہے۔مسکان خان جو گیٹ پر اچھی خاصی مڈبھیڑ کے بعد کیمپس کے احاطے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئی تھی حالات کا سامنا کرنے کو تیار تھی، موٹر سائیکل سے اُترتے ہی وہ چیتے کی آنکھ سے بلوائیوں کی طرف دیکھ کر اسی چال سے آگے بڑھتی ہیں تو ہجوم ان کا پیچھا کرتا ہے ۔ایک تنہا لڑکی درجنوں بلوائیوں اور آمادہ ٔ فساد ہجوم کے آگے اعتماد کے ساتھ قدم رکھ رہی ہے مگر ہجوم ہے کہ اس کا پیچھا چھوڑنے پر آمادہ نہیں یوں لگ رہا تھا کہ ہجوم آج مسکان کا برقع اتروا کر اپنی فتح کا جشن منانا چاہتا ہے مگر مسکان اپنی طاقت کا بلب روشن کرنے کے لئے روایتی پاور ہائوس سے مدد مانگ کر جے شری رام کے تعاقب کرتے نعروں کے جواب میں اللہ اکبر کا نعرہ لگاتی ہے ۔جب ہجوم اس کا پیچھا کرنے سے باز نہیں آتا تو مسکان بلوائیوں کی طرف پیچھے مڑ کر زور زور سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتی ہے پھر وہ اپنی مقامی زبان میں کیمرہ مین کو ہجوم کے مطالبے سے آگاہ کرتی ہے کہ یہ لوگ اس سے برقع اتار کر کیمپس میں داخل ہونے کا کہہ رہے تھے ۔یوںیہ وہ لمحات تھے جب مسکان دنیا بھر میں شخصی آزادیوں اور اسلامی تہذیب کی ایک علامت بن کر اُبھر رہی تھی ۔مزاحمت کا ایک استعارہ بن رہی تھی ۔خوف کو جھٹکنے کے ایک لمحے نے مسکان کو مزاحمت کی ایک مثال بنا دیا تھا اور اس کے پیچھے بھاگنے اور گھیرائو کرنے والا نفرت کا سودا گرہجوم دنیا بھر میں ذلت ورسوائی کی علامت بن کر رہ گیا تھا ۔مسکان کے ایک فیصلے نے بھارت میں مزاحمت کی ایک طرح ڈال دی تھی ۔

مزید پڑھیں:  ایران اسرائیل کشید گی اور سلامتی کونسل کی ناکامی