تھے کوچہ جاناں سے پرے بھی کئی منظر

ہے تو تجزیہ مگر اسے ایک تین کالمی سرخی کے تحت خبر کی صورت شائع کیا گیا ہے ‘ چونکہ تجزیئے اور خبر میں بہت فرق ہوتا ہے اس لئے جس شکل میں اسے خبر کی صورت چھاپنے کاتکلف کیا گیا ہے اس میں خبریت بھی بس لکھنے والے کی اپنی سوچ کے مطابق ہے ‘ خبر تو حقائق پرمبنی ہوتی ہے جو اس ”خبر” میں حوالے کے طور پر کہیں نظر نہیں آئے اور بقول خبر نگار بات اس قسم کی”افواہوں”یا پھر کسی کی سوچ کے مطابق اس کی ذہنی اختراع کی ہی بنیاد پر تحریر بن کر اخباری کالموں میں جگہ پا گئی ہے ‘ خیر جانے دیں ‘ آپ چاہیں تو آپ بھی اسے خبر کا درجہ دے سکتے ہیں ‘ یا پھر ہماری”ناقص” سوچ کے مطابق اسے کسی کی ذہنی اختراع کا درجہ دے سکتے ہیں ‘ اب آتے ہیں اس خبر کے مندرجات کی جانب جس کی جلی سرخی یہ ہے کہ ”مولانا اور ایمل ولی کے لئے قومی اسمبلی کا دروازہ کھل گیا”۔ ذیلی سرخیوں پر نظر ڈالی جائے تو آپ کو ہمارے خیال سے اتفاق کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا ‘ چونکہ یہ ”خبر” ہفتہ کے روز شائع ہوئی ہے اس لئے ذیلی سرخیوں کو یہاں نقل کرکے ہم آپ کا وقت ضائع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ‘ آپ نے یا تو یہ خبر نما تبصرہ یا تجزیہ پڑھ لیا ہو گا یا پھر صرف تین روزہی کی بات ہے اور محولہ خبر کو ا خبار کے صفحات پر آسانی سے تلاش کر سکتے ہیں ‘ ہم صرف اس کا تجزیہ کریں گے ‘ اصولی طور پر تو فاضل تجزیہ کار نے اپنے تئیں درست سوچا ہے کہ حالیہ دنوں میں تحریک انصاف کے گیارہ اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کرکے انہیں ڈی سیٹ کر دیا گیا اور الیکشن کمیشن نے سپیکر قومی اسمبلی کی درخواست پر نشستیں خالی قرار دے دی ہیں ‘ ان پر ظاہر ہے ضمنی انتخابات کرائے جائیں گے اور اس موقع کو غنیمت قرار دے کر مولانا فضل الرحمن اور ایمل ولی خان کے ضمنی انتخابات میں ممکنہ طور پر حصہ لینے کی سوچ خبر نگار(تجزیہ کار) کی اپنی سوچ تو ہو سکتی ہے لیکن میرے خیال میں جن سیاسی رہنمائوں کی جانب سے ضمنی انتخابات میں ان نشستوں پر میدان میں اتر کر الیکشن میں حصہ لینے کی بات کی جارہی ہے وہ اپنی جماعتوں کے دیگر اراکین کو تو انتخابی امیدوار کے طور پر انتخاب میں حصہ لینے کا موقع ضرور دیں گے اور خود ایسی غلطی ہر گز نہیں کریں گے کہ بقول احمد فراز
تھے کوچہ جاناں سے پرے بھی کئی منظر
اور وہ منظر یہ بھی ہیں کہ ایک تو ایسے بھی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ موجودہ سیاسی حالات میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال میں یہ حکومت اپنی بقیہ مدت پوری کرنے میں کامیاب ہوجائے گی ‘ دوسرا یہ کہ چند ماہ کے بقیہ مدت اقتدار میں اگر پارٹیوں کے اہم رہنما قومی اسمبلی میں پہنچ بھی جائیں تو اس سے ان کو کتنی طمانیت محسوس ہو گی بلکہ اسی وجہ سے اپنی پارٹیوں کے دیگر رہنمائوں کوموقع دیں گے کہ وہ قسمت آزمائی کریں ‘ لفظ قسمت آزمائی اس لئے کہ ان گیارہ نشستوں کے خالی قرار دیئے جانے کی وجہ سے تحریک انصاف کی صفوں میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس کے پیش نظر ضمنی انتخابات میں ”درد کی شدت”سے بے چین جماعت کے رہنمائوں اور کارکنوں میں”انتقام” کے شعلے ایک پاکستانی فلم ہانگ کانگ کے شعلے بن کر ہر صورت میں ان خالی والی نشستوں پر لڑ مرنے کی کیفیت پیدا کرنے اور ضمنی انتخابات کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنانے پر تل جائیں گے ‘ برعکس اس کے اگر یہ لیڈران کرام اپنی جماعتوں کے دیگر اہم رہنمائوں کو میدان میں اتارتے ہیں توان کی کامیابی کے لئے تگ و دو کرکے انہیں جتوا کر ان نشستوں کو اپنے قبضے میں کر سکتے ہیں اور اس کے بعد عام انتخابات(جب بھی ہوئے) میں یہ آرام سے جہاں سے چاہیں حصہ لیکر اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں ‘ بہرحال محولہ خبر نما تجزیئے یا پھر تجزیہ نما خبر میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے ممکن ہے کہ ایسا ہو بھی جائے یعنی مولانا صاحب اور ایمل ولی خان ضمنی انتخابات میں واقعی حصہ لیکر ”عزت سادات” کو دائو پر لگانے کے ”جال” میں پھنس جائیں اس لئے کہ سیاستدانوں کا کام ہی انتخابات میں حصہ لیکر اقتدار کی رہداریوں میں چہل قدمی کے مزے لوٹنے کا ہے ۔ کہ سیاست کا خارزار انہیں یہی درس تو بقول شاعردیتا ہے کہ
تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آجاتے ہیں
ہم نے اپنی سوچ کے مطابق جو جوابی تجزیہ کیا ہے اس کی بھی اپنی وجوہات ہیں ‘ اور وہ یہ کہ موجودہ حکومتی اتحاد کو ان دنوں جس قسم کے چینلجز درپیش ہیں اور حکومت کے مستقبل کے حوالے سے جس قسم کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے اس صورتحال میں خصوصاً مولانا صاحب پر پی ڈی ایم کے سربراہ کی حیثیت سے بڑی ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں ‘ جن سے وہ تادم تحریر انتہائی موثر انداز میں عہدہ آ ہو رہے ہیں انہیں چوکنا رہنے کی جتنی ضرورت ہے وہ اس سے زیادہ فعال ہو کر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ‘ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ چو مکھی لڑائی لڑ رہے ہیں تو بے جا نہیں ہو گا ‘ ادھر دوسری جانب ایمل ولی خان نے حالیہ دنوں میں جو بیانات داغے ہیں ‘ ان کی وجہ سے سیاسی مخالفین کی صفوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے اور وہ ان کے بیانات کا جواب دیتے ہوئے ان کے بزرگوں تک کو نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ ایمل ولی خان نے نہایت دبنگ لہجے میں مخالفین کو جواب دیتے ہوئے اپنے موقف سے کسی بھی طور پیچھے نہ ہٹنے کی بات کی ہے ‘ انہوں نے جن ا لزامات کی ”چاند ماری” کی ہے ان سے مخالفین کی صفوں میں بے چینی کی کیفیت کا اندازہ لگانے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی اور یہ بات تو طے ہے کہ جب کسی کے پاس”جواب” نہ ہو تووہ دشنام طرازی پر اتر آتا ہے ۔ ایسی صورت میں بھی ایمل ولی کا خود ضمنی انتخابات میں اتر کر آبیل مجھے مار کا موقع سیاسی مخالفین کو دینے کے نتائج کچھ بھی نکل سکتے ہیں ‘ کیونکہ موجودہ حالات میں موصوف نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ دے دیا ہے ‘ اس لئے احتیاط کے تقاضے ضمنی انتخابات میں کود پڑنے سے زیادہ فی الحال اس کے علی الرغم حکمت عملی اختیار کرنے کو سنجیدگی سے لینے پر توجہ دینے کے متقاضی ہیں۔ کہ بقول ناصر کاظمی
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب