3 380

تیار رہیئے

ہت ساری پریشانیاں ایسی ہیں جن کا اندازہ اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک وہ خود آپ کو دامن گیر نہ ہوں۔کورونا کتنی بڑی پریشانی کا نام ہے اس کا اندازہ بھی تبھی ہونے لگتا ہے جب یہ خود آپ کو گرفت میںلیتا ہے۔اس بیماری سے وابستہ خوف اپنی جگہ لیکن اس وقت پاکستان میں طب سے وابستہ انڈسٹری لوگوں کی اس مجبوری کا جس طرح استحصال کر رہی ہے وہ بھی کمال ہے۔کرونا کے ٹیسٹ کی قیمت ساڑھے چھ ہزار روپے ہے اور ہر وہ شخص جو کرونا جیسی پریشانی کا شکار ہوتا ہے اس کو اس وجہ سے تیرہ ہزار روپے خرچ کرنے لازم ہیں ایک دفعہ وہ ٹیسٹ جو یہ بتائے گا کہ جی ہاں آپ کرونا کا ہی شکار ہیں اور دوسری دفعہ وہ ٹیسٹ جو آپ کو یہ نوید سُنائے گا کہ مبارک ہو آپ اس بیماری سے عہدہ برآء ہوگئے۔ان دونوں ٹیسٹوں کے درمیان ایک طویل سلسلہ ہے دوائیاں ہیں،اگر ڈاکٹر صاحب نے آپ کو انجکشن لگوانے کا کہہ دیا ہے تو اس کی تکلیف میں اس وقت خاطر خواہ اضافہ ہو جائے گا جب کمپائونڈر آپ سے منہ مانگی فیس وصول کرنا چاہیں گے۔اس وقت تو دل کی تکلیف میں شدید اضافہ ہوگا جب نجی لیب والے آپ کو فون کرینگے۔پہلے ہی گھر میں پانچ مریضوں کے باعث پریشانی ہوگی اور وہ آپ کو بتائینگے کہ ایک وقت کے لئے تمام مریضوں کو انجکشن لگانے کے وہ ڈھائی ہزار فی مریض لینگے گویا ایک دفعہ آنے کی قیمت ساڑھے بارہ ہزار روپے ہوگی اب اگر دن میں تین بار انجکشن لگنے ہیں تو ایک دن کی صرف انجکشن لگوانے کی قیمت ساڑھے پنتیس ہزارہے۔انجکشن کی دوائی کی قیمت اسکے علاوہ ہے۔گویا اگر آپ نے پانچ دن کی دوائی کا کورس کرنا ہے۔تو آپ کو محض ٹیکہ لگوانے کے لئے ایک لاکھ ستاسی ہزار پانچ سو روپے کی ضرورت ہے اور اگر دوائی کی قیمت شامل کریں تو بات دو لاکھ سے اوپر چلی جائیگی۔یہ سارا خرچ اس وقت تک اسی حد میں رہے گا جب تک حالات اس سے زیادہ بگاڑ کا شکار نہیں ہوتے۔اگر خدانخواستہ معاملہ بگڑ جائے تو کون جانے کس حد تک خرچ بڑھ سکتا ہے۔اگر آپ نجی لیب کے ہاتھوں انجکشن لگوانے کے متحمل نہیں ہوسکتے تو کئی دوسری کمپنیاں بھی موجود ہیں جو فی چکر ایک ہزار سے ڈیڑھ ہزار روپے تک فی مریض لیں گی۔اب اس سے زیادہ حساب لگانے کی مجھ میں ہمت نہیں کیونکہ اس کی قیمت بھی کوئی ایسی کم نہیں۔اگرچہ وہ اپنے سرمایہ کارانہ نفع پسند طریقہ واردات سے لوگوں کی جیب نہیں کاٹ رہے لیکن کسی طرح بھی بڑی کمپنیوں سے کم نہیں۔دوائی کے حصول کے لئے جو مارے مارے پھر نا پڑتا ہے وہ اپنی جگہ ہے۔گویا بیماری کے ساتھ ساتھ خواری کا ایک ایسا نظام مریض کو اور اسکے گھر والوں کو جکڑ لیتا ہے کہ اس کا حساب کرنا ہی مشکل ہوجاتا ہے۔آج میرا ارادہ آپ کے سامنے ان حقائق کو رکھنے کا ہی ہے۔احتیاط تو یقیناً بہت بہتر ہے لیکن اگر خدانخواستہ کسی اور کی ہی لاپرواہی سے آپ اس بیماری کا شکار ہوگئے تو پھر یوں گھن چکر بنیں گے کہ کچھ سمجھ نہیں آئے گی ۔رمضان کی برکت کے باعث یوں ہی مسلمانوں نے ہر ایک شے کی قیمت بڑھا رکھی ہے۔ان کو شاید یہ بتایا گیا ہے کہ رمضان کی برکت سے آپ کو مستفید ہونے کے لئے خود ہی جستجو کرنی پڑتی ہے۔جس قدر اپنے نفع میں برکت پیدا کرسکتے ہیں کرلیں سو یہی ہوتا ہے۔لوٹ مار کا ایک ایسا نظام ہے جوپورے ملک میں رمضان شروع ہوتے ہی رائج ہوجاتا ہے اور اسے پھر عید الفطر کے بعد ہی سکون آتا ہے۔ایسے میں اگر بیماری ساتھ شامل ہو جائے تو اپنے گھروالوں کی بہتر نگہداشت اور صحت کے لئے یا تو پس انداز کی ہوئی رقم کی قربانی دیجئے،کسی سے قرضہ اٹھا لیجئے یا پھر کوئی شئے فروخت کیجئے کیونکہ اس کے علاوہ یہ سب ممکن نہیں۔یاد رکھیئے کہ ہاتھوں کے دستانے کے جس ڈبے کی قیمت پہلے ساڑھے چارسو روپے تھی،اب وہ پندرہ سو کا ہوچکا اور یہ سلسلہ صرف اسی حد تک موقوف نہیں بلکہ چہار جانب پھیلا ہوا ہے اس ساری صورتحال کی ابتری میں حکومت وقت کو دوش دینے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ رمضان اور بیماری دونوں ہی غریب ملکوں میں پیسہ کمانے کے موسم ہیں۔کسی بھی قسم کی حکومت اس صورتحال کو کبھی قابو نہیں کر سکی اور چونکہ وہ اس سب سے کبھی بالواسطہ یا بلاواسطہ اس طرح اثرانداز نہیں ہوتے اس لئے ان کا دھیان بھی نہیں ہوتا۔اگر کوئی حکومت سستا بازار کی قسم کے اقدامات کرتی ہے تو قرضوں کی رقم سے صرف زرتلافی ہی مارکیٹ میں منافع خوروں کی جیبوں میں ڈالا جاتا ہے۔مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔اپنے آپ کو اپنے اعصاب کو مضبوط کیجئے۔یہاں معاملات میں کئی سطح پر بگاڑ ہے۔غربت اس بگاڑ میں کسی قسم کی بہتری کا امکان بھی پیدا نہیں ہونے دیتی سو اس سب کا مقابلہ ہی کرنا ہوگا۔کیونکہ ہم بحیثت قوم بہت بگڑ چکے ہیں اور ہمیں اپنے کردار کے بگاڑ کا کوئی احساس نہیں اس لئے فی الحال صبر کیجئے احتیاط کرسکتے ہیں تو کرلیں ورنہ تیار رہیں کیونکہ علاج تو کروانا ہی ہوگا۔رمضان بھی گزارنا ہوگا اور سرمایہ دارانہ نظام کی جس محبت میں ہماری حکومتیں مبتلا رہتی ہیں اس کا ہم خود ہی ایندھن ہیں۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''