تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ایک ٹائم بم

تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پاکستان کیلئے ایک ٹائم بم کے مترادف ہے، اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2050 ء تک پاکستان کی مجموعی آبادی 56 فیصد اضافے کے ساتھ 36 کروڑ60 تک پہنچ جائے گی۔ پاکستان پہلے ہی موجودہ آبادی کے انتظام کے لیے معاشی ترقی یا سیاسی استحکام کی مطلوبہ سطح کے بغیر آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے، ہم آہنگ معاشی اور سماجی ترقی کے بغیر آبادی میں بے پناہ اضافہ اجتماعی خودکشی کے مترادف ہوگا۔ محدود وسائل کے حامل پاکستان کی آبادی پہلے ہی 22کروڑ سے زائد ہے جس میں زیادہ تر علاقائی اور مسلم ممالک کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔1998ء اور 2017 ء کی دو مردم شماریوں کے درمیان آبادی میں سالانہ 2.4 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا اور یہ شرح جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے مابلے میں تقریباً دوگنا ہے۔ حتیٰ کہ وزیر اعظم پاکستان بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آبادی میں اضافے کی اتنی بلند شرح غیر پائیدار ہے کیونکہ یہ ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کے معمولی ثمرات کوکھا رہی ہے، جس سے انسانی ترقی جیسا کہ صحت، غذائیت، تعلیم اور ہنرمندی کے شعبوں میں بنیادی سرمایہ کاری کو یقینی بنانا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
ملکی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے اور آبادی میں اضافے کے ساتھ غریب طبقے کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ ماحولیات اور قدرتی وسائل پر دباؤ تیزی سے انحطاط، موسمیاتی تغیرات سے متعلقہ خدشات میں اضافے، تحفظ خوراک کے حوالے سے خطرات اور سب سے بڑھ کر فی کس پانی کی دستیابی میں بھی شدید کمی کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان میں غربت کا خاص طور پر غریب ترین گھرانوں میں کم شرح خواندگی، آبادی میں اضافے اور زچگی کے دوران زیادہ شرح اموات سے گہرا تعلق ہے، تقریباً 60 فیصد پاکستانیوں کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے جبکہ تقریباً 50 فیصد خواتین اور بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ واضح طور پر آبادی میں اضافے کی بلند شرح کا نقصان بہت زیادہ ہے، سوال یہ ہے کہ پاکستان اپنی غیر پائیدار بنیادوں پر بڑھتی ہوئی آبادی کو منظم بنانے کے لیے کیا کر سکتا ہے؟ اس حوالے سے ایسے کئی حل موجود ہیں جن کی جڑیں ان عوامل میں ہیں جو ترقی کی بلند شرح کا باعث بنتے ہی، جوڑوں کی ایک بڑی تعداد بچوں کی پیدائش کو محدود کرنا چاہتی ہے لیکن معلومات یا خدمات کے فقدان کے باعث وہ ایسا کرنے سے قاصر ہی، سال 2018ء میں کرائے گئے قومی صحت کے سروے کے مطابق خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات کے لیے نہ پوری ہونے والی ضروریات 17 فیصد زائد ہیں۔
مانع حمل ادویات کے استعمال میں اہم رکاوٹوں میں مراکز صحت دور واقع ہونا، اخراجات، سماجی رکاوٹیں، خدمات کا ناقص معیار اور کئی طرح کی غلط فہمیاں شامل ہیں۔ لاکھوں خواتین ہر سال اکثر غیر محفوظ حالات میں اسقاط حمل کا سہارا لیتی ہیںجس سے ان کی صحت متاثر ہوتی ہے، چنانچہ صحت، آبادی اور تعلیم پر کم سرکاری اخراجات سماجی و اقتصادی ترقی کے مایوس کن اشاریوں کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہیں۔ 2018ء میں وزارت صحت کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال اوسطاً 90 لاکھ خواتین حاملہ ہوتی ہیں، جن میں سے کم از کم 40 لاکھ غیر ارادی حمل ہوتے ہیں جنہیں روکا جا سکتا ہے، ان غیر ارادی40 لاکھ حمل میں سے 14لاکھ پیدائش ہوتی ہیں، 22لاکھ خواتین اسقاط حمل کراتی ہیں اور چار لاکھ کا حمل ضائع ہوجاتا ہے۔
آبادی میں تیزی سے اضافے کا ادراک کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے 2018 میں از خود نوٹس لیا، آبادی میں اضافے کو روکنے کے حوالے سے طریقہ کار وضع کرنے کے لیے ایک قومی ٹاسک فورس تشکیل دی، اس ٹاسک فورس نے آٹھ جامع سفارشات پر مشتمل ایک ایکشن پلان تیار کیا اور ان سفارشات کی توثیق مشترکہ مفادات کی کونسل بھی کر چکی ہے ، ان سفارشات میں آبادی میں اضافے کی شرح میں کمی لانا، مانع حمل کی شرح میں اضافے کے حوالے سے اہم فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے قومی اور صوبائی ٹاسک فورسز کا قیام شامل ہے، اس کے علاوہ خاندانی منصوبہ بندی اور تولیدی صحت کی خدمات تک زیادہ سے زیادہ رسائی کو یقینی بنانا، کم از کم 10 ارب روپے سالانہ مختص کرنے کے ساتھ ترقی کو کم کرنے کے لیے ایک خصوصی فنڈ کا قیام، لازمی تولیدی صحت کی خدمات کو یقینی بنانے کے لیے خصوصی قانون سازی، کم عمری کی شادیوں پر پابندی اور شادی کے وقت خاندانی منصوبہ بندی کی لازمی مشاورت ، سب کے لیے سماجی و اقتصادی بہبود ، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں حفظان صحت اور جنسی تعلیم کے لیے نصاب کو اپ ڈیٹ کرنا، ضروری ادویات کی فہرستوں میں خاندانی منصوبہ بندی کا مواد شامل کرکے مانع حمل تک رسائی کو یقینی بنانا اور خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں مذہبی طبقے کے تعاون کا حصول بھی ان سفارشات کا حصہ ہے۔
پاکستان کو اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کے ڈراؤنے خواب سے نمٹنے کے لیے ایک جدید اور اشتراکی حکمت عملی اپنانے کی ضروت ہے، ملکی ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے آبادی پر کنٹرول کو اپنی معاشی پالیسیوں کا محور بنانا چاہیے۔
(بشکریہ، عرب نیوز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار