جائیں تو جائیں کہاں ؟

شانگلہ میں بشام کے قریب چینی انجینئرز کی گاڑی پر بارود سے بھری گاڑی سے کئے جانے والے خودکش حملے میں 5چینی انجینئرز سمیت 6افراد جاں بحق ہوگئے۔25اور 26مارچ کی درمیانی شب تربت میں پاکستان نیوی کے بیس کیمپ پر دہشت گردوں کے حملے میں ایک اہلکار جاں بحق ہوگیا جبکہ جوابی کارروائی سے 4حملہ آور مارے گئے۔ پی این ایس صدیق پر حملے میں مارے جان والے دہشت گردوں کی شناخت معلوم کرنے کیلئے ڈی این اے سے مدد لی جائے گی۔ منگل کی شب تربت میں اور منگل کے روز شانگلہ میں ہونے والی وارداتوں پر محض افسوس کافی ہے نہ ہی مذمتی بیانات، ضرورت اس امر کی ہے کہ آزادانہ تحقیقات کے ذریعے دونوں وارداتوں کے ذمہ داران اور سہولت کاروں کو نہ صرف سامنے لایا جائے بلکہ انہیں قانون کے کٹہرے میں لاکر قرارواقعی سزا دلوائی جائے۔ چینی انجینئرز پر دہشت گردوں کے حملے کا یہ پہلا واقعہ ہرگز نہیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران اس طرح کے کئی افسوسناک واقعات رونما ہوئے ان میں سنگین ترین واقعہ داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینی انجینئروں پر حملہ تھا جس کے بعد چین نے داسوڈیم سمیت دیگر منصوبوں پر جاری ترقیاتی کاموں کو معطل کردیا تھا۔ داسو ڈیم والے افسوسناک واقعہ کے بعد حملہ آوروں کے سرپرست گروپ کی جو ویڈیو وائرل ہوئی اس میں کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجو جن خیالات کا اظہار کررہے تھے انہیں خطرے کی گھنٹی نہ سمجھنا کھلی غلطی تھی ثانیا یہ کہ جنگجوئوں کے اس گروپ کے کمانڈر بارے تو خفیہ ایجنسیوں سمیت دیگر محکموں کو بھی علم تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں سمیت چند برس قبل(اس واقعہ سے)گلگت جیل سے فرار ہوا تھا تب اس معاملے میں گلگت بلتستان کے اس وقت کے وزیراعلیٰ کا نام بھی آیا تھا بہرطور اس امر پر دو آراء ہرگز نہیں کہ اگر داسو ڈیم خودکش حملے کے ذمہ داروں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاتی تو سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی انجینئروں اور دیگر ملازمین کو نشانہ بنانے کی مزید کارروائیوں کو روکا جاسکتا تھا۔ دہشت گردی کی حالیہ چند وارداتوں سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پیدا شدہ صورتحال کو یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ان دونوں صوبوں میں دہشت گردوں کو آسان اہداف کیوں حاصل ہوجاتے ہیںاس کی صرف ایک وجہ غیرمحفوظ پاک افغان سرحد ہی نہیں چند دیگر وجوہات بھی ہیں ان میں ایک اہم وجہ پی ٹی آئی کے دور میں خیبر پختونخوا کی حکومت کی سفارش پر صدر مملکت کے فرمان سے ایک سو سے زائد دہشت گردوں کی رہائی بھی ہے۔ جیلوں سے رہا کئے کئے جانے والے یہ دہشت گرد امن دشمن کارروائیوں میں خصوصی مہارت کے حامل تھے ان افراد کی رہائی کابل میں پی ٹی آئی حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں عمل میں لائی گئی تھی تب یہ تسلی دی جارہی تھی کہ ٹی ٹی پی سے ہونے والے کابل مذاکرات سے دہشت گردی میں کمی ہوگی لیکن ہوا اس کے برعکس۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کابل مذاکرات کو ٹی ٹی پی کے منظم ہونے کا ذریعہ قرار دینے والوں کا مؤقف درست ثابت ہوا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ افغان طالبان کی حکومت نے عملی طور پر کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی ہرممکن مدد کی یہی نہیں بلکہ افغان عبوری حکومت کے بعض رہنماء یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی جدوجہد ویسی ہی جدوجہد ہے جس طرح ہم نے امریکہ کے خلاف کی۔ افسوس کہ اس پاکستان دشمن مؤقف کا کسی سطح پر نوٹس لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ جہاں تک بلوچستان میں جاری وارداتوں کا تعلق ہے تو ہر واردات کے بعد ابتدائی تفتیش کے بغیر فوری طور پر اس کا ذمہ دار ناراض بلوچوں کی مسلح تنظیموں سے جوڑ دیا جاتا ہے بسا اوقات یہ دعویٰ بھی سامنے آتا ہے کہ مارے گئے افراد میں ایک یا دو کے نام مسنگ پرسن میں شامل تھے۔ گوادر میں پیش آئے چند روز قبل کے ایک واقعہ میں مرنے والے 8افراد میں سے ایک کے بارے میں یہی دعویٰ دہرایا گیا مگر اس امر کو مدظر رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ مسنگ پرسن کی حالیہ فہرست میں اس کا نام نہیں تھا۔ یہی وہ نکتہ ہے جس سے گوادر واقعہ میں مارے جانے والے افراد کے حوالے سے سرکاری دعویٰ کمزور ہوا۔ یہ امر بہرطور اپنی جگہ مسلمہ حقیقت کے طورپرہر خاص و عام کے سامنے ہے کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جاری دہشتگردی کی وارداتوں کے مقامی کرداروں کے پیچھے بعض بین الاقوامی قوتیں بھی ہیں،ان قوتوں کے مفادات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ سی پیک کے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی انجینئروں اور دیگر باشندوں کو نشانہ بنانے کی کارروائیاں ان قوتوں کے ایماء اور تعاون پر ہورہی ہیں جو پاک چین سی پیک منصوبے کو رول بیک کرانا چاہتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ بعض ایسے افراد بھی حالیہ واقعات پر ریاست کی ناکامی پر تالیاں بجارہے ہیں جو ایک طویل عرصے تک ریاست کے سیاہ و سفید کا دفاع کرتے رہے ہیں۔ بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر دو واقعات سمیت دہشت گردی کے کے مرتکب عناصر اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف فوری اور مؤثر کارروائیاں کی جائیں اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ امن دشمنوں اور ان کے سرپرستوں کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہونے پائے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا