جارحانہ اننگزکا آغاز

سپیکر قومی اسمبلی نے بالاخر اراکین اسمبلی تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں واپسی کے عندیہ کے بعد قومی اسمبلی کے استعفے منظور کر لئے ہیں جس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی ان اراکین کو ڈی نوٹیفائی کر دیا ہے۔خیال رہے کہ تحریک انصاف کے ارکان نے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد گزشتہ برس اپریل میں قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے دے دئیے تھے اور ان کا اصرار تھا کہ ان کے استعفے فوری منظور کئے جائیں تاہم اسپیکر کی جانب سے مرحلہ وار استعفے منظور کیے جاتے رہے اس مرتبہ35 ارکان کوفارغ کیاگیا ہے۔استعفوں کی منظوری کے بعد تحریک انصاف کے قائد عمران خان کے گزشتہ ضمنی انتخابات کے طرز پران ساری نشستوں پر بھی امیدواربننے کاعندیہ ظاہر کیا جارہا ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے35ارکان کے استعفوں کی منظوری اور ان کی نشستیں خالی قرار دئیے جانے کے بعد پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ ( پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا اہم بیان سامنے آیا ہے کہ پی ٹی آئی کی35خالی نشستوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں پی ڈی ایم حصہ نہیں لے گی۔ اس حوالے سے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے بھی نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دو تین ماہ کے لئے کون کون الیکشن لڑے گا؟ میرا خیال ہے کہ ہمیں ضمنی الیکشن نہیں لڑنا چاہئے۔قطع نظر ان بیانات کے میدان خالی چھوڑنا بھی بہرحال مشکل ہو گا ممکن ہے بعد میں اس موقف پرنظر ثانی ہو جائے۔قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)رہنما فواد چوہدری نے کہا تھا کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ قائد حزب اختلاف ‘پارلیمانی لیڈر اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کے دفاتر تحریک انصاف کے اراکین کو دئیے جائیں۔جس سے ان کی واپسی کا عندیہ سنجیدہ لگتا ہے لیکن اب شاید واپسی کے لئے حالات وہ نہیں رہے بلکہ اب تو حکمران جماعتیں پی ٹی آئی کا وتیرہ اختیارکرتی دکھائی دیتی ہیں انداز سیاست بد ل گئے ہیں استعفوں کی ایک خاص وقت پر منظوری سپیکر کامیرٹ پرنہیں بلکہ سیاسی ضرورت کے تحت فیصلہ ہے جس کے بعد ان کی جانبداری پرسوال اٹھنا فطری امر ہو گا لیکن بہرحال سپیکر نے اپنی صوابدید کے مطابق جوکام کیا ہے وہی بہتر توجیہہ بھی پیش کرسکتے ہیں البتہ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی کایہ موقف وزن رکھتا ہے کہ اگراستعفے قبول کرنا ہے توسب کرلیں سلیکشن غلطی ہے ۔ بہرحال تحریک انصاف کی اسمبلیوں کی تحلیل اور استعفوں کی سیاست کا کھیل اب آخری مرحلے میں داخل ہو گیا ہے تحریک انصاف استعفوں کے معاملے پر بروقت حتمی فیصلہ کرکے اسمبلی کی مراعات تنخواہیں اور پارلیمانی لاجز چھوڑ کرمیدان میں آتی تو ان استعفوں کی سنجیدگی پرسوال نہ اٹھتا گزشتہ دور میں بھی سال بھر اسمبلی سے باہر رہنے کے بعد تحریک انصاف اسمبلی واپس آگئی تھی مگر اس مرتبہ حکومت ان کا راستہ روکنے کی پوری تیاری میں نظر آتی ہے جس کی ذمہ دار خود تحریک انصاف کے فیصلے ہیں جویکے بعد دیگرے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنے آپ کو دیوارسے لگانے کے باعث بنے قومی اسمبلی میں مخالف سیاسی جماعتوں کا اتحاد ان کو دیوارسے لگا رہی ہے کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کے ممبران قومی اسمبلی کے حلقوں میں ان کی بری شکست سے پی ڈی ایم کو حوصلہ ملنا اور تحریک انصاف کی مقبولیت کاگراف قریب الاختتام ہونے کا تاثر ان کے لئے مشکل صورتحال کا باعث ہے یہ درست ہے کہ گزشتہ ضمنی ا نتخابات میں تحریک انصاف کے قائد کی سطح پر لڑی گئی لڑائی میںتحریک انصاف کی مقبولیت کا بڑی حد تک دفاع ضرور ہوا مگر خود اپنے خالی کردہ نشستوں پر ہار سے اس کے گراف نیچے آنے کا سوال بہرحال اٹھ کھڑا ہوا اب ایک جانب پی ڈی ایم تین ماہ کے لئے ضمنی انتخاب نہ لڑنے کے مضبوط بیانیہ کے سہارے کھڑی ہے تودوسری جانب کھیل کے اب ہموار ہوئے میدان میں اکیلے ایک ہیوی ویٹ کاتین ماہ کی عمر والی اسمبلی کے لئے امیدوار ہونے کی صورت میںکم ٹرن آئوٹ کی صورت میں اپنی مقبولیت کے گراف کو ٹیسٹ کرنے کاعمل جوا کھیلنے کے مترادف ہوگا۔ سیاسی کھیل کی اس گرمی میں عوامی مسائل اور ملکی مفادات و معاشی حالات اور مہنگائی ثانوی درجے سے بھی نیچے چلے گئے ہیں ایسے میں اگر امید کی کوئی کرن ہے تو اب ایسا نظرآتا ہے کہ سیاست کایہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے کی پوزیشن میں آگیا ہے اس کے بعد ہی سیاستدانوں اور حکمرانوں کو عوام کی یاد آئے گی اس سے پہلے اس کی توقع ہی عبث ہو گا۔

مزید پڑھیں:  جامعات کے ایکٹ میں ترامیم