جرگہ سسٹم کی موجودہ دور میں خرابیاں

پشتونوں اور بلوچوں میں جرگہ کا رواج ہے ،یہ دونوں اقوام قبائلی زندگی کے عادی رہے ہیں ،جرگہ میں کسی ملک ، سردار یا خان کی سربراہی میں ایک گروہ جوفریقین کے نمائندوں اور علاقہ کے مشران پر مشتمل ہوتا ہے ایک جگہ بیٹھ کر لوگوں کے وہ مقدمات جو ان سے حل نہیں ہو پاتے وہ اسلامی اصولوں یا مقامی رواج کی روشنی میں حل کرتے ہیں ، اس کے لیے کوئی تحریری ضابطہ نہیں ہے ، یہ روایات پر مبنی ہوتے ہیں ۔١٩٧٠ تک حکومت جرگہ کے مشران کا باقاعدہ نوٹیفکیشن کرکے نامزدگی کرتی تھی اور ڈپٹی کمشنر اور پولیٹیکل ایجنٹ کو بااختیار کرتی تھی جو ان جرگوں کی سربراہی کرتے تھے لیکن جنرل یحییٰ خان نے ان پر مکمل پابندی لگا دی تھی جس کے بعد یہ سب شخصی بنیادوں پر ہونے لگا، مسائل اور آپس کے اختلافات کا یہ ان خطوں میں واحد ذریعہ تھا ،جرگہ کی طرز پر پنجاب اور سندھ میں پنچائیت کا نظام موجود ہے جس کا سربراہ سر پنچ ہوتا ہے اور مکمل بااختیار ہوتا ہے وہ اپنی مرضی سے مروجہ اصولوں میں تبدیلی کرسکتا ہے مشہور زمانہ مختاراں مائی کے کیس نے پوری دنیا میں پنچائیت کو ایکسپوز کردیا تھا۔ جرگوں اور پنچائیت میں عورتوں کے ساتھ مسلسل ظلم ہوتا آیا ہے جرم ہمیشہ مرد کرتا ہے اور اور پھر اس کی سزا کے خاتمے کے لیے عورت کو بطور چارہ استعمال کیا جاتا ہے سندھ اور پنجاب میں تو یہاں تک ہوتا رہا ہے کہ اگر کوئی مرد کسی عورت سے جنسی تعلق قائم کرے تو سزا کے طور اس کی بہن یا بیٹی کو دوسرے فریق کو پیش کردیا جاتا ہے کہ وہ بھی اس سے وہی عمل کرے یہ انتہائی غیر انسانی فعل سندھ اور پنجاب کی دیہاتوں میں ہونا ایک معمول ہے ۔یہی حال ہمارے ہاں جرگوںکا ہے جس میں سورہ کے نام پر بچیوں کی زندگی عذاب بنا دی جاتی ہے ۔جرگوں میں پیش ہونے والے لوگ اس ملک کے شہری ہیں جہاں ایک آئین موجود ہے اس آئین کی رو سے قوانین بنائے گئے ہیں اور تنازعات اور مقدمات کے حل کے لیے ایک نظام بنایا گیا ہے اس کے لیے عدالتیں موجود ہیں ۔اس لیے اب یہاں جرگہ ایک اور متوازی نظام ہے جس سے موجودہ دور میں بہت ساری خرابیاں جنم لے رہی ہیں ۔آج سے چند دہائیوں بیشتر پشتونوں کا ماحول کچھ اور تھا ان کے مسائل بھی مختلف تھے وہ جس خطے میں رہتے تھے وہاں ایک دوسرے کے ساتھ وہ مختلف رشتوں میں بندھے ہوئے ہوتے تھے یوں وہ ایک دوسرے کاا حترام کرتے تھے ، اور پختون ولی کا دوردورہ تھا ۔ادھے پشتون قبائلی علاقوں میں رہائش پذیر تھے جن کے لیے ایف سی ار کا سیاہ قانون تھا مگر اب ایف سی ار بھی ختم ہوچکا ہے تمام پشتونوں کو حکومت اور عدالت تک براہ راست رسائی حاصل ہے ۔آج بھی حکومت نے ڈسپیوٹ ریزولیشن کونسل (DRC) بنائے ہیں جو جرگہ کے طرز پر کام کرتے ہیں اور تنازعات اور مسائل کو کم وقت میں حل کرتے ہیں حکومت کے اس اقدام سے بہتری آئی ہے اور سپیڈی جسٹس کا تاثر ملنے لگا ہے چونکہ یہ مکمل سرکاری سرپرستی میں ہوتا ہے اس لیے اس میں نقائص کم ہیں اور ان کے فیصلوں کے خلاف عدالتوں سے رجوع بھی کیا جاسکتا ہے ۔ ہمیں آزاد ہوئے ستر برس سے زیادہ کا عرصہ ہوا مگر ہم نے ابھی تک اپنے معاشرے اور ضروریات کے حساب سے قوانین نہیں بنائے انگریزوں کے دور سے رائج نظام کو ہی معمولی تبدیلیوں کے ساتھ رائج کرتے آئے ہیں ، ہمارا عدالتی نظام نقائص کا حامل ہے ۔اس نظام میں انصاف حاصل کرنامشکل اور وقت طلب کام ہے عدالتوں میں لاکھوں کیس کئی عشروں سے پڑے رہتے ہیں ان پر فیصلے نہیں ہو پاتے اور پھر انصاف حاصل کرنے کے لیے وسائل کا ہونا بھی بہت ضروری ہے اس لیے ایک مقدمہ پر لاکھوں کا خرچہ آتا ہے ۔ اس لیے لوگ عدالتوں سے زیادہ جرگوں اور پنچائیتوں کے پاس جاتے ہیں جہاں انصاف ہو نہ ہو مگر فیصلہ ہوجاتا ہے ۔جرگوں کا قدیم نظام کسی حد تک قابل قبول تھا اس لیے کہ قبائلی نظام میں اور کوئی ذریعہ انصاف حاصل کرنے اور تنازعات کے خاتمے کا نہیں تھا مگر اس دور میں اس کے کئی نئے ورژن سامنے آئے ہیں اب ہر علاقہ کے بدمعاش، اٹھائی گیر، قبضہ گیر نے اسے اپنا بزنس سمجھ کر یہ کام شروع کیا ہے یہ بدقماش گروہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہوتے ہیں اور لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور حکومت انہیں کچھ نہیں کہتی ، گاڑیوں ، زمینوں اور تجارتی لین دین میں یہ گروہ اب اس معاشرے میں ناسور کی شکل اختیار کرچکے ہیں ان کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کے پلاٹ ، زمین، گھر ، گاڑیاں ، سامان اور رقوم پر دوسرا گروہ قبضہ جمالیتا ہے اور سہارا ان بدمعاشوں کے جرگوں کا لیتا ہے اکثر و بیشتر ان کے ساتھ علاقے کا ایس ایچ او بھی شامل ہوجاتا ہے جس سے ان کی قوت اور بڑھ جاتی ہے یا نام نہاد جرگوں والے جرگہ کے فیصلوں کی تعمیل نہ ہونے کی صورت میں بہت بڑے بڑے جرمانے عائد کرتے ہیں اور پھر اپنی بدمعاشی اور ملکی عدالتی نظام کی نقائص کی وجہ سے یہ جرمانے وصول بھی کرتے ہیں ۔ملاکنڈ ڈویژن اور قبائلی علاقہ جات میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا استعمال و خرید وفروخت عام ہے چونکہ ان گاڑیوں کی کوئی قانونی دستاویز نہیں ہوتی اس لیے اس میں تنازعات کا واحد حل یہ نام نہاد جرگہ سسٹم ہے اور ان نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے کاروبار سے وابستہ بیشتر لوگ جرائم پیشہ ہیں اور ان کا ایک مکمل نیٹ ورک ہے جس میں یہ ایک دوسرے کی سپورٹ کرتے ہیں ۔پھر خیبر پختونخوا میں ایک گروہ ایسا بھی پیدا ہوچکا ہے جو سود پر قرض دیتا ہے اور اس کے لیے اپنے من مانے ریٹ مقرر کرتا ہے چونکہ غریب لوگ وقتی ضرورتوں کی بنیاد پر ان سے قرض لے لیتے ہیں اگر ان کو ادا کرنے میں کچھ دیر کرتے ہیں تو اس کے بدلے ان کو بہت زیادہ سود دینا پڑتا ہے ایسے میں کوئی تنازعہ پید اہوتو اس میں ان لوگوں نے اپنے خودساختہ جرگہ بنایا ہوتا ہے جو ان غریب لوگوں کے خلاف ہی فیصلہ دیتا ہے ، ملاکنڈ ڈویژن میں ہنڈی اور حوالے کا کاروبار عروج پر ہے بٹ خیلہ ، تیمرگرہ ، مینگورہ ، ڈگر اور دیگر شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس غیر قانونی کاروبار سے سے وابستہ ہیں ،ان کے تمام معاملات چونکہ غیر قانونی ہوتے ہیں اس لیے یہ بھی اپنے تنازعات جرگوں کے ذریعہ حل کرتے ہیں اور یہاں بھی ان کا ایک گروہ ہوتا ہے جو ہمیشہ غریبوں کا استحصال کرتا ہے اور ان بدمعاشوں کو فائدہ پہنچاتا ہے ۔پشاور اور صوبہ کے دیگر اضلاع میں قیمتی پتھروں کا مقامی کاروبار ہوتا ہے چونکہ اس کاروبار میں پاکستانی اور افغانی باشندے دونوں شامل ہوتے ہیں اور یہاں سب کچھ روایتی طریقہ کار کے تحت ہوتا ہے اور حکومت کو ٹیکس دینا کا کوئی عمومی رواج نہیں ہے اس لیے یہاں کے معاملات بھی جرگوں کے ذریعہ چلائے جاتے ہیں یہاں بھی بدمعاش گروہ سرگرم ہیں جو ان تاجروں سے ان کے پیسے اور قیمتی پتھر ہتھیا لیتے ہیں ۔تورخم بارڈر پر چونکہ زیادہ تر سمگلنگ ہوتی ہے وہاں بھی کوئی تنازعہ ہو تو اسے اس کام کے لیے مقامی سمگلروں کے بنائے ہوئے جرگوں میں حل کیا جاتا ہے یہاں بھی بدمعاشوں کا اپنا گروہ ہوتا ہے ۔اس طرح اس ملک میں جہاں بھی غیر قانونی کاروبار ہوتا ہے وہاں یہ جرگہ سسٹم رائج ہے ۔اس ملک کے ارباب اختیار کو سوچنا چائیے کہ اس طرح ان کا نظام عملاً مفلوج ہوجاتا ہے اور ملکی قوانین بے اثر ہوجاتے ہیں یہ شخصی عدالتیں اس تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہیں کہ لگتا ہے چند برس بعد حکومت بھی اپنے مسائل ان جرگوں کے ذریعہ حل کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔ان جرگوں کو بہت ہی بااثر افرادسیاسی اور حکومتی دونوں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے ان لوگوں کیخلاف بھی اقدام اُٹھائے جائیں اور پولیس کو پابند کیا جائے کہ وہ ان کا آلہ کار نہیں بنے گی وہ ہر صورت میں ملک میں موجود قانون کو ہی لاگو کرے گی بصورت دیگر اس ملک میں کوئی سرمایہ کاری نہیں کرے گا یہاں سے برین ڈرین جو ہورہی ہے اس میں مزید تیزی آجائے گی اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہاں صرف لاقانونیت کا راج ہوگا ۔اس لیے اس کا سدباب ضروری ہے ۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی