Editorial 2

جسے سمجھے تھے جینا

کل 11مئی کو نقل مکانی کرنے والے پرندوں کا عالمی دن تھا، اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام نے 2006 سے اس دن کو منانے کا آغاز کیا جس کا مقصد دنیا والوں کو یہ بتانا تھا کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ نقل مکانی کرنے والے یہ پرندے بدلتے موسموں کیساتھ خانہ بدوشی کرنے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں اور ہر اس مقام کو چھوڑ دیتے ہیں جہاں پر ان کی زندگی تنگ ہونے لگتی ہے، مثلاً پاکستان میں دسمبر کے آخری دنوں میں سائبیریا اور روس کے سرد علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں کونج، شاہین، بگلے، بٹیر اور تلور جیسے خوبصور پرندے نہ صرف صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں پہنچ جاتے ہیں بلکہ منگلا ڈیم اور ہیڈ رسول میں بھی ان کا جم غفیر ماحول کے حسن میں بے حد اضافہ کرنے لگتا ہے، یہ پرندے ہمارے ہاں مہمان بن کر آتے ہیں اور مہمانوں نے تو چلا جانا ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں کا شکاری مافیا کب میرا نشیمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں کہ مصداق ہاتھ دھوکر ان کے پیچھے پڑجاتے ہیں اور یوں ان کی تو بس موجاں ہی موجاں یا چاندی ہی چاندی ہو جاتی ہے، ہم اُڑنے والے پرندوں کو اس حوالہ سے خوش قسمت کہتے ہیں کہ وہ فضاؤں میں قلابازیاں کھاتے اور فضاؤں میں اُڑ کر جہاں چاہیں جا سکتے ہیں لیکن ہم جو اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کہتے پھرتے ہیں اتنی آزادی سے کہیں بھی تو نہیں جاسکتے۔ ہم نے فضاؤں میں اُڑنے کیلئے طیارے تو بنا لئے لیکن حدود قیود کے اندر رہنے پر مجبور ہیں لیکن نقل مکانی کرنے والے پرندوں کیساتھ ایسا نہیں ہوتا، وہ جب اور جہاں چاہتے ہیں چلے جاتے ہیں، انہیں ایسا کرنے کیلئے کسی ویزے یا پاسپورٹ کی ضرورت نہیں پڑتی، ان کے اس ہرجائی پن کو دیکھ کر تلسی داس نے کہا ہے کہ جب جل سوکھ جائے، یعنی پانی کی کمی ہوجائے تو وہ اُڑ کر کہیں سے کہیں نکل جاتے ہیں، لیکن ان کے مقابلے میں پانی میں تیرتی مچھلی ایسا نہیں کرتی
پریت نہ کریو پنچھی جیسی جل سوکھے اُڑ جائے
پریت تو کریو مچھلی جیسی، جل سوکھے مر جائے
جس طرح ایک مچھلی کو ہر قیمت پر پانی میں رہنا ہوتا ہے اس طرح ہم خشکی پر رہنے والے لوگ نہ پانی میں رہ سکتے ہیں اور نہ ہی فضاؤں میں، پھرکاریاں مار کر اُڑ سکتے ہیں، زمین ہماری ماں ہے اور ہم سب اس کے بچے جن کی تعداد سات ارب سے بھی زیادہ ہے۔ ہمہ وقت اس کے سینے پر مونگ دلتے رہتے ہیں، سمجھتے بوجھتے اس کی آبادی میں بے تحاشا اضافہ کرتے رہتے ہیں، درخت اُگانے اور فضاؤں کو پاک صاف رکھنے کے نعرے تو لگاتے ہیں لیکن ایسا کر نہیںسکتے، درخت جن پر پرندے بسیرا کرتے ہیں ہم ان کو کاٹ کر بیچ کھانے یا جلا دینے میں کوئی کسر روا نہیں رکھتے، ہمارے کارخانوں کی چمنیوں میں اور فراٹے بھرتی ٹریفک کی گاڑیاں اس قدر دھواں اُگلتی رہتی ہیں کہ ہم زمین ماں کو کروی حدت یا گلوبل وارمنگ جیسی بیماری میں مبتلا کردیتے ہیں، قدرت نے زمین کو آسمانی آفات سے بچانے کیلئے اوزون گیس کا جو غلاف بنا رکھا تھا، ہماری ان حرکات کی وجہ سے وہ چھیدا جا چکا ہے، یہ سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود ہم جس رفتار سے موسموں کے بدلاؤ اور آلودگی کے پھیلاؤ کا باعث بنے ہوئے ہیں اس میں کسی بھی قدر کمی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا، ہم میں سے طاقتور یا ترقی یافتہ ممالک کے لوگ یا ان کی قیادت کہنے کو تو حقوق انسانی کے دعویدار ہیں لیکن کرونا جیسی وباء کے پھیلنے یا اس کو پھیلانے کا تقاضا ان کے جھوٹے نعروں یا دعوؤں کی قلعی کھول رہا ہے ایسا وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے یا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے کر رہے ہیں مگر ہمارے ان اوچھے ہتھکنڈوں اور نت نئے گل کھلاتے کرتوتوں کے سبب بدنام ہونے کی نسبت اچھے ہیں یہ پرندے جو جب اور جیسے ہی ایسے حالات پیدا ہوں وہ دور بہت دور نکل جاتے ہیں، سکھ چین اور دانہ دنکا کی تلاش میں اور اس وقت تک ان مقامات پر بود وباش اختیار کئے رہتے ہیں جہاں کے موسم یا بدلتی رتیں انہیں وہاں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور نہیں کر دیتیں
اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے ہیں
اب رہائی ملے گی تو کہاں جائیں گے
کاش ہمارے بھی پر پرزے ہوتے اور ہم پرندوں کی طرح کشش ثقل کیخلاف پر آزمائی کرسکتے مگر پرندے بھی تو کشش ثقل کے دائرہ سے باہر نکل نہیں سکتے، ہم جو دھرم کا نام لیکر دل دل نفرتوں کے بیج بوتے رہتے ہیں، ایک دوسرے کے خون ناحق سے اپنے ہاتھ رنگ رنگتے رہتے ہیں ہم جو کھیت کھیت آلودگی کی فصلیں اُگا رہے ہیں، فضاؤں میں کورونا کا زہر پھیلا رہے ہیں، بھوک افلاس اور ننگ سے بچنے کیلئے ایک دوسرے کا گوشت نوچ رہے ہیں، لاکھ کوشش کے باوجود، اپنے پیدا کردہ زہریلے ماحول سے بھاگ کر کہیں نہیں جا سکتے، پیوند زمیں ہونے کیلئے آئے ہیں اور پیوند زمیں ہونے کا سامان پیدا کرتے رہتے ہیں، نقل مکانی کرنے والے پرندے ہمیں سمجھاتے ہیں کہ جہاں زندگی کے دن تنگ ہونے لگیں وہاں سے ہجرت کر لینا کارثواب ہے لیکن کرونا وائرس نے ہمارے لئے ہجرت کے راستے بھی مسدود کر دئیے کہ اب کے جو یہ اُترا ہے تو اس نے پرندوں کی طرح کسی بھی بین الاقوامی سرحد کو خاطر میں نہیں رکھا۔ اللہ جانے اس کا نقل مکانی کرنے والے پرندوں پر کیا اثر ہوا، اس بات سے ہم ہرگز آگاہ نہیں ہیں، ہائے کہ ہم اپنی قبریں خود ہی کھودنے کے عمل سے گزر رہے ہیں
جسے سمجھے تھے جینا
فقط وہ خودکشی ہی تھی

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے