جلسوں سے اسمبلی تک!

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جلسے اور جلوس روز اول سے ہیں چونکہ اس وقت پرنٹ میڈیا کا دور تھا تو اخبار کی بات کو ہی مان کر عوام اپنے فیصلے کرتی رہی ہے ۔ لیکن اب وقت بدل چکاہے الیکٹرونک میڈیا نے سب کچھ صاف صاف دکھانا شروع کردیا ہے کسی مبالغے کی آمیزش نہیں ہے اور اس سے بھی بڑھ کر سوشل میڈیا بھی بھر پور کام کررہا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے زائد کے عرصہ میں میں نے کئی جلسے ، بڑے جلسے بہت بڑے جلسے اسی طرح جلسیاں ، ریلیاں دیکھیں ، بظاہر ان جلسوں اور ریلیوں کا مقصد کچھ اور دکھایا جاتاہے بینر وں پر کچھ اور لکھاہوتاہے تاہم مقصد ہر بار ہر سیاسی جماعت کا ایک ہی رہاہے کہ وہ کسی طور عوام میں زندہ رہیں اور اس سے بھی بڑھ کر وہ انتظامیہ کو عوام میں اپنی مقبولیت کا رعب ڈال سکیں۔ستر اور اسی کی دھائی میں بڑاجلسہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ہواکرتاتھا کسی بھی سیاسی پارٹی کا اس باغ میں جلسہ کرنا اس پارٹی کے بڑے ہونے کی نشانی تھی اور اس سے بھی بڑھ کر جب وہ اسے اپنے کارکنوں سے بھرلیں تواس کا سیدھا سادھا مقصد انتظامیہ کو باور کروانا ہوتاتھا کہ دیکھ لیں ہم کتنے پانی میں ہیں۔ اور یہ وقت کی ضرورت بھی تھی اور عوام کی ڈیمانڈبھی کیونکہ ملک کے دیگر حصے اسی جلسے کو بنیاد بنا کر فیصلہ کرلیا کرتے تھے کہ انہیں کس جماعت کے ساتھ جانا ہے ۔ عوام میں یہ تاثر عام تھا کہ ”چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی ” اور کسی بھی پارٹی کا راولپنڈی کا جلسہ ہی یہ طے کرتا تھا کہ پوری قوم نے کس کو ووٹ دے کر اسلام آباد پر حکمرانی کا حق دینا ہے۔ یہ سلسلہ کئی برسوں تک چلتا رہا پھر ایک نئی تحریک نے جنم لیا اور جلسوں کا نہ صرف جذبہ بدلہ بلکہ ان کا رخ بھی بدلا دیا۔ متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی میں اتنے بڑے بلکہ تاریخ کے بہت بڑے جلسے کروائے اور پھر ان کے منتخب نمائندوں نے سب سے زیادہ ووٹ لینے کے ریکارڈبھی اپنے نام کئے تاہم سڑکوں پر طاقت ظاہر کرنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ آپ کی یہ طاقت اسلام آباد میں کچھ کام آسکے گی۔ اسمبلی میں وہ ہی لوگ کام آتے ہیں جنہوں نے ووٹ لئے ہوتے ہیںاب چاہئے وہ ریکارڈ ووٹ لے کر سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کے مارجن سے جیتے ہوں یا صرف چند سو ووٹوں کی برتری لے کر قومی اسمبلی میں پہنچے ہوں۔ اور اب یہ بات ہمارے سیاسی لیڈروں کو کچھ کچھ سمجھ بھی آنی شروع ہوچکی ہے تاہم جلسے کرنے بھی ضروری ہیں تاکہ عوام کے خون کر گرماکر انہیں انتخابات والے دن پولنگ سٹیشن تک لایا جاسکے اور اپنے حق میں ووٹ ڈالنے تک انہیں جگائے رکھنا بھی لازم ہے وگرنہ جلسہ بہت بڑاہی کیوں نہ ہو پولنگ والے دن اگر بکسے خالی نکلے تو پھر ساری محنت دھری کی دھری رہ جائے گی۔اور جہاں تک بات ہے احتجاج کی سیاست کا اور اسلام آباد کے ڈی چوک کو کئی دنوں بلکہ ہفتوں تک یر غمال بنانے کا تو یہ قطعاً کسی بھی کامیابی یا ناکامی کا عندیہ نہیں ہے اگر اس کی مثال میں ماضی میں جماعت اسلامی (جدید) کے سربراہ قاضی حسین احمد (اب مرحوم) نے راولپنڈی اور اسلام آباد کی ہر ایک گلی میں احتجاج کیا جلسے اور جلوس نکالے اور بغیر مبالغے کے جلسے بھی بڑے ہوتے تھے اور جلوس بھی تاہم جب ووٹ کی بات آتی تھی تو بکسے خالی نکلتے رہے یہ ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں بلکہ درجنوں بار ہواہے آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ جماعت اسلامی گزشتہ کئی دھائیوں سے ایک، دو یا تین نشستوں پر قومی اسمبلی میں بیٹھی ہوتی تھی ۔ ابھی بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان کا اکلوتا قومی اسمبلی کا ممبر مولانا چترالی صاحب عدم اعتماد پر ووٹ دیں یا نہ دیں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ لہٰذا جلسوں اور بکسوں کا بھرا اور خالی ہونا لازم و ملزوم ہے اور ہر دوپر ہر ایک سیاسی جماعت کو پوری طرح کام کرناہے۔ ہر سیاسی جماعت یا پھر سیاسی اتحاد چاہے چھوٹی پارٹی ہو یا بڑی پارٹی اس نے گزشتہ انتخابات میں ووٹ لئے ہوں یا نہ لئے ہوں۔ نہ تو جلسوں کو ختم کرکے بکسوں کی فکر کرنی ہے اور نہ ہی بکسوں کو نظرمیں رکھے بغیر جلسے ہی کرتے رہنا ہے۔ جلسے بھرنے کا ایک ہی مقصد ہوکہ یہ لوگ آگے چل کر ہمارے بکسے بھی بھریں گے نہ کہ بریانی کھاکر یا تو ووٹ دینے کی زحمت ہی نہ کریں یا پھر پولنگ سٹیشن تو جائیں ضرور مگر ووٹ کسی اور کو دے آئیں۔ پھر ان کی سیاسی جماعتیں دھاندلی دھاندلی کا ڈھنڈوراپیٹنا شروع کردیں ۔
جی ہاں یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ الیکٹ ایبل کے چکر میں پڑکر کسی لوٹے کو ٹکٹ نہ دے دیں وہ چند ماہ یا سال آپ کے ساتھ چلے اور پھر اپنے مفادات کے لئے کسی بھی سیاسی جماعت کو بلیک میل کرتارہے اور اگر اس کی بات نہ مانی جائے تو لوٹا ہوکراپنی ہی جماعت کے خلاف ووٹ دے کر سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دے۔ اس لئے ہر ایک سیاسی جماعت کو پورے ہوش و حواس میں چن چن کر پہلے تو اپنے دیرینہ ورکرکو ہی ٹکٹ دیں تاکہ لوٹا ہونے کا سوال ہی پیدا نہ ہو اور اگر اپنا کارکن و دیرینہ نمائندہ نہ ملے یا وہ اتنا طاقتور نہ ہوتوپھر ایسے بندے کے ساتھ اتحاد کرے کہ جو اس سیاسی پارٹی کے مزاج کو نہ صرف سمجھتا ہوبلکہ اس کے مطابق پھر اسمبلی میں کام بھی کرے ۔ ان کے ضمیر کو بھی اچھی طرح سے پرکھ لیں اور اگرضمیر کو جگانے کی ضرورت ہے تو ٹکٹ دینے سے پہلے ہی جگالینا زیادہ ضروری ہے کیونکہ آخر میںاسمبلی پہنچ کر اس کے ضمیر نے تو جاگنا ہے ہی۔ ضمیر جاگنے کی بیماری اکثر پیراشوٹر کو ہی ہوتی ہے بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کا دیرینہ کارکن اس طرح کی نیچ حرکت کرنے کا مرتکب ہوا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ایک تو میں اپنی سیاسی جماعت کے نام سے جاناجاتاہوں اور دوسرا اس سیاسی پارٹی کے کارکنوں نے اگلے الیکشن میں میرا وہ حال کرنا ہے کہ میری ضمانت بھی ضبط ہوسکتی ہے۔

مزید پڑھیں:  تجربہ کرکے دیکھیں تو!