haider javed said 37

جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی

ہونا تو یہ چاہئے کہ پی ڈی ایم کے دو بڑی اتحادی جماعتوں پی پی پی اور نون لیگ کے کارکنان تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کریں کیونکہ دونوں کی قیادتوں نے صبر وتحمل کی تلقین کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک دوسرے کیخلاف بیان بازی سے اجتناب کیا جائے، جس شام یہ تحریر لکھ رہا ہوں اس کی صبح جاتی امرا لاہور میں پی ڈی ایم ناشتہ پر جمع تھی۔ ناشتے کی دعوت ہلکے پھلکے اجلاس میں بدل گئی۔ سیاستدان جہاں اکٹھے ہوں اجلاس بن ہی جاتا ہے۔ اس ناشتہ نما اجلاس میں مریم نواز اور پی پی پی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ کے درمیان نوک جھونک بھی چلتی رہی، جاتی امرا میں خوشگوار ماحول میں ناشتہ کے وقت فریقین کے گھوڑے اسلام آباد میں دوڑ رہے تھے، اسی سہ پہر سینیٹ چیئرمین کے دفتر سے سید یوسف رضا گیلانی کی بطور اپوزیشن لیڈر تقرری کا نوٹیفکیشن جاری ہوگیا۔ گیلانی کی تائید میں سینیٹ کے 30ارکان نے دستخط کئے جبکہ نون لیگ کی طرف سے نامزد سینیٹر اعظم تارڑ 21ارکان کی تائید حاصل کرپائے۔ مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی ف نے اپوزیشن لیڈر کیلئے کسی اُمیدوار کی حمایت حاصل نہیں کی، یہ حیران کن بات ہے حالانکہ مولانا دو دن قبل یہ کہہ چکے تھے کہ اپوزیشن لیڈر نون لیگ کا ہوگا پی ڈی ایم کا مشترکہ فیصلہ ہے۔ عجیب بات ہے کہ ان کی جماعت مشترکہ فیصلے کیساتھ کھڑی نہیں ہوئی۔ یہ دوسرا موقع ہے جب مولانا نے ایسی بات کہی جو پی ڈی ایم میں طے نہیں ہوئی تھی۔ پہلے انہوں نے دعوی کیا تھا کہ لانگ مارچ سے قبل استعفے دینے کا فیصلہ ہوچکا تھا پھر کہا اکثریتی فیصلہ ہے۔ انہیں یاد کروایا گیا کہ پی ڈی ایم میں اتفاق رائے سے یہ فیصلہ ہونا طے پایا تھا اکثریت سے نہیں۔ اس بات کا وہ برا منا گئے۔ اب صورت یہ ہے کہ گیلانی پر پہلی پھبتی احسن اقبال نے کسی اور اس کے بعد نون لیگ کا سوشل میڈیا سرگرم ہوگیا، پھر ہمدردان میدان میں کودے سب کو یاد آگیا کہ بھٹو نے پاکستان توڑا تھا۔ کیا نون لیگ قومی مجرم نہیں بن گئی کہ اس نے دوبار پاکستان توڑنے والی پارٹی سے سیاسی اتحاد کیا۔ ایک بار وفاق میں اس کیساتھ مخلوط حکومت میں شامل ہوئی۔ پنجاب میں بھی اس کیساتھ ملکر 2008 میں حکومت بنائی تھی۔ ملک توڑنے والی پارٹی کے سابق وزیراعظم کو پی ڈی ایم کا سینیٹ کے رکن اور چیئرمین کے عہدے کیلئے اُمیدوار تسلیم کیا؟ اسیران جمہوریت وسول سپرمیسی پچھلے چند گھنٹوں سے پیپلزپارٹی اور بھٹو خاندان کی ایسی ایسی خوبیاں بیان کررہے ہیں جو خود پی پی پی اور بھٹو خاندان کے علم میں بھی نہیں۔ قبل ازیں بھی ان سطور میں یہ عرض کرچکا ہوں کہ سیاسی اتحاد فطری یا غیرفطری نہیں ہوتے، وقت، حالات اور مسائل اشتراک عمل پر آمادہ کرتے ہیں۔ مثلاً پی این اے کی وہ جماعتیں جو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی میں جنرل ضیا الحق کی حکومت کی سہولت کار تھیں جب اے آر ڈی نامی اتحاد میں پیپلزپارٹی کیساتھ بیٹھیں تو اس موقع پر بیگم نصرت بھٹو اور مولانا مفتی محمود دونوں کی گفتگو سیاسی تاریخ کا اہم باب ہے۔ اے آر ڈی میں تحریک استقلال کے اصغر خان بھی شامل تھے ان سے ایک قومی جرم سرزد ہوا تھا کہ انہوں نے 1977کی بھٹو مخالف تحریک کے دوران مسلح افواج کے سربراہوں کو مارشل لاء لگانے کیلئے خط لکھا اس خط میں کہا تھا آپ کی آئینی ذمہ داری ہے کہ فاشسٹ حکومت کو برطرف کرکے ملک میں جمہوریت بحال کرائیں۔ نون لیگ پہلی بار اے آر ڈی میں پیپلزپارٹی کیساتھ بیٹھی۔ یہ اتحاد مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان کی کوششوں سے اس وقت قائم ہوا تھا جب جنرل پرویز مشرف نون لیگ کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کرچکے تھے۔ ایم آر ڈی میں شمولیت سے قبل پیپلزپارٹی کی سنٹرل کمیٹی کا اجلاس بلاول ہاؤس کراچی میں مخدوم امین فہیم کی صدارت میں ہوا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی آراء بذریعہ ٹیلیفون سنٹرل کمیٹی کے سامنے رکھیں۔ اس اجلاس میں پی پی پی کی سنٹرل کمیٹی کے پنجاب اور پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ارکان نے اے آر ڈی میں شمولیت پر تحفظات ظاہر کئے۔ 1988سے اکتوبر1999 کے درمیان نون لیگ کی دو حکومتوں کے پیپلزپارٹی سے برتاؤ اور بالخصوص1988 سے اگست1990 کے درمیان آئی جے آئی کے پروپیگنڈے کا حوالہ دیا (نون لیگ آئی جے آئی میں شامل تھی) اختتامی تقریر میں جو محترمہ بینظیر بھٹو نے ٹیلیفون کے ذریعہ کی کہا ساتھیو، میں آپ کو ایم آر ڈی کی تشکیل کے وقت محترمہ بیگم نصرت بھٹو کی گفتگو یاد دلاتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گی ہم بحالی جمہوریت کیلئے سیاسی اتحاد میں شمولیت اختیار کررہے ہیں اس اتحاد میں ہماری شمولیت ہی پچھلے گیارہ برسوں کے پروپیگنڈے، الزامات اور مقدمات کا جواب ہوگا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے یہ بھی کہا کہ ہم سیاسی لوگ ہیں سیاست میں ذاتی دشمنیاں نہیں ہوتیں بلکہ ایک دوسرے کا سیاسی میدان میں مقابلہ ہوتا ہے۔ بالآخر پیپلزپارٹی نے نوابزادہ نصراللہ خان کو ایم آر ڈی میں شمولیت کیلئے رضامندی دیدی۔ پاکستانی سیاست کی تاریخ کے دو اتحادوں کے قیام اور پس منظر بارے معروضات عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نون لیگ کو بھی سیاسی رویہ اپنانا چاہئے اور اپنے ہمدردوں کی تربیت بھی کرنی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟