3 286

جواب دہ کون؟

مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا کہ سب سے زیادہ غم کی بات برے لوگوں کا ظلم اور سفاکیت نہیں بلکہ اچھے لوگوں کا اس پر خاموش رہنا ہے۔ جب معاشرے ظلم اور جبر کا شکار ہوتے ہیں، جب کمزور کو جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جب ظلم اس حد تک بڑھتا ہے کہ بات نوحوں اور آہوں سے آگے بڑھ جاتی ہے، جب احساس کے ضبط کی طنابیں ٹوٹنے لگتی ہیں، جب معاملات ہاتھ سے پھسلنے لگتے ہیں تب ان لوگوں کو جاگنا پڑتا ہے جو اس ظلم کے اثر سے بھی محفوظ ہیں لیکن ان کی سوچ، ان کی سمت درست ہے اور وہ ظلم کے سامنے کھڑے ہو جانا چاہتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ لوگ حکومت میں ہوں لیکن اگر یہ لوگ حکومت میں ہوں، طاقت رکھتے ہوں تو ان کے احساس کا اثر اور بھی بڑھ جاتا ہے، کیونکہ ان کے ہاتھوں میں ظلم اور ظالم دونوں کا ہی منہ توڑ دینے کی طاقت ہوتی ہے اور جب وہ یہ نہیں کرتے، جب وہ اس حد تک بھی نہیں کرتے کہ ظلم سہنے والوں کے سر پر اپنا ہاتھ ہی رکھیں، انہیں یہ ہی تسلی دیں کہ وہ ان کی مدد کے لئے موجود ہیں اور کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تو صرف مظلوم کی اُمید نہیں ٹوٹتی، ظالم کی ہمت بھی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ شاید اسی لئے ڈیسمینڈ ٹوٹو (Desmund Toto) نے کہا تھا کہ اگر کوئی ظلم کی صورتحال دیکھ کر خاموش رہتا ہے اور کسی کی طرف داری نہیں کرتا تو دراصل وہ ظالم کا ساتھ دے رہا ہے اور پھر آڈری لارڈ (Audre Lorde) نے کہا تھا کہ ایک انقلابی تبدیلی کا بنیادی مقصد صرف جبر کی کیفیت سے نکلنا ہی نہیں ہوتا بلکہ جابر کا وہ حصہ جو مظلوم کی نفسیات کا حصہ بن جاتا ہے اس خوف سے چھٹکارا پانا بھی ہوتا ہے۔ جب جب کسی لیڈر، کسی حکمران نے ظلم کو اپنے ہاتھ سے نہیں روکا، جبر کو روکنے کیلئے پوری تندہی سے کوشش نہیں کی اور صدق دل سے معاشرے میں ظلم کا قلع قمع کرنے کی کوشش نہیں کی، تب تب وہ معاشرہ جو اس کی ذمہ داری تھی مزید بگاڑ کا شکار ہوتا ہے۔ اس میں درستگی کے امکانات معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں اور لوگ نااُمیدی کے اندھیروں میں اپنی بصارت کھوتے جاتے ہیں۔ پاکستان کیساتھ بھی یہی معاملہ ہے، یہاں کبھی کسی حکمران نے اس جبر کا راستہ بھی نہیں روکا جس کا ان کا بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی فائدہ تھا۔ پولیس کو سیاسی لیڈران اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتے ہیں، اس لئے ملک میںپولیس گردی کے سامنے سیاسی لیڈر کھڑا نہیں ہوتا لیکن یہ سب تو عمران خان جیسے لیڈر کے مسائل ہی نہیں۔ اوکاڑہ میں تین ننھے بچوں کی آنکھوں کے سامنے ان کے ماں باپ کو گولیاں مار دی گئیں، اسلام آباد میں ایک نوجوان بچے کی جان لے لی گئی لیکن عمران خان کی طرف سے کوئی ایسا پیغام نہ آیا جو لوگوں کے دلوں میں یہ اُمید پیدا کرتا کہ اب انصاف ملنے لگے گا۔ یہ اُمید بہت اہم تھی کیونکہ اس معاشرے سے یہ اُمیدہی مٹ چکی ہے۔ عمران خان سے، تحریک انصاف سے اس اُمید کا ہی تو امکان تھا، لوگوں کا خیال تھا کہ ان کے ساتھ ہی یہ اُمید جاگے گی لیکن ان دو سالوں میں اس کا تو کوئی امکان ہی پیدا نہیں ہوا بلکہ کہیں کہیں قدموں کے جو نشان تھے وہ بھی مٹنے لگے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ(ن) نے پنجاب میں اور پیپلزپارٹی نے سندھ میں پولیس کو اپنے گھر کی باندی بنائے رکھا۔ اس روئیے نے پولیس میں شدید بگاڑ کو جنم دیا لیکن اس وقت معاملہ پولیس کا نہیں، اس ایک بچے کا بھی نہیں جو پولیس گردی کا شکار ہوگیا، اس وقت بات ان گیارہ لوگوں کی ہے جو بلوچستان میں نامعلوم لوگوں اور عناصر کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہوئے۔ وہ گیارہ لوگ جو ظلم کی اس شدت سے گزرے جس کا احاطہ کرنا بھی ممکن نہیں اور اس ملک کے وزیراعظم جن کی کئی باتوں پر میں خود ان کی مدح سرائی کرتی ہوں، اس وقت ان لوگوں کے لواحقین کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ ان کے جنازے دفنا دیں۔ وزیراعظم صاحب ان کے پاس ضرور آئیں گے لیکن ابھی نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم ابھی کیوں نہیں جائیں گے۔ لوگ ظلم کا شکار ہوئے ہیں، ان کی دل جوئی کیوں نہیں، ان کے سر پر ہاتھ کیوں نہیں رکھنا، کس کو معلوم نہیں کہ بلوچستان میں کونسی طاقتیں یہ سب کر رہی ہیں، ان طاقتوں کے پاس وزیراعظم نے اپنا اقتدار ختم ہونے کے بعد پناہ کیلئے بھی نہیں جانا تو پھر یہ تاخیر کیوں؟ اس تاخیر کا آخر فائدہ کیا ہے؟ اس میں کیا حکمت ہے، یہ لوگ فرات کے کنارے پیاس سے مرنے والے جانور سے تو بہتر ہونے چاہئے تھے۔ ہمارے حکمرانوں نے تو شاید روزقیامت کسی بات کا جواب نہیں دینا لیکن لوگوں کے جذبات کا تھوڑا خیال کرلیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ شبلی فراز، فواد چوہدری اور سب ہی لوگ یہ بات تسلیم کر رہے ہیں کہ وزیراعظم کو بلوچستان جانا چاہئے لیکن اس میں اتنی تاخیر کیوں، اس بات کا کوئی جواب نہیں۔ یہ اکثر ہی ہوا ہے کہ ظالم کا ہاتھ نہ روکنے والے اس کے جرم میں شامل سمجھے گئے ہیں۔ حضرت علی نے بھی بتا دیا تھا کہ ناانصافی پر مبنی معاشرے مٹ جایا کرتے ہیں لیکن جہاں ناانصافی بھی ہو گزشتہ سیاست دانوں کی پھیلائی ہوئی تاریکی چُن دینے کا عزم بھی ہو، پھر بھی کسی بلکتے کے سر پر ہاتھ نہ رکھا جائے، مردوں کے ختم ہوجانے کے بعد جنازے ڈھوتی عورتوں کے سر پر چادر نہ ڈالی جائے، اس کا جواز کیا ہوگا، اس سب کا جواب دہ کون ہوگا؟۔

مزید پڑھیں:  عید کے موقع پر بی آر ٹی میں رش