جوش نہیں ہوش سے کام لیجئے

بہت احتیاط تحمل اور بردباری کے مظاہرے کی ضرورت ہے لیکن کسی کو یہ بات سمجھ میں آئے تو، ہردور میں نئی وفاداری کو ثابت کرنے کیلئے سابقین کے بارے میں ناراوا زبان استعمال کی ، سیاست میں اختلافات کا ہونا برائی نہیں برائی یہ ہے کہ آپ سیاسی اختلافات کو زندگی اور موت کا مسلہ بنادیں یا کفرواسلام کی جنگ تاریخ و صحافت اور سیاسیات کے طالبعلم کی حیثیت سے یہ عرض کرسکتا ہوں کہ ہمارے یہاں ہر حکومت نے مخالفین کے خلاف مذہب کو ہتھیار بنایا یا پھر حب الوطنی کو مشکوک ، حالانکہ اس کی ضرورت تھی نہ ہے کاش ہمارے ارباب حکومت و سیاست یہ سمجھ سکتے ، دونوں کو بہرصورت یہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ وہ جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے بھی ، اس لئے مناسب ہوگا تمام امور کے حوالے سے جمہوری روایات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کریں اور آگے بڑھیں۔ وزیراعظم اپنے سیاسی مخالفین کو جن القابوں سے بلاتے اور سامنے موجود مجمع کی تالیوں، نعروں سے حظ اٹھاتے ہیں اس کی تحسین ہرگز نہیں کی جاسکتی۔ وہ ملک کے وزیراعظم ہیں، جمہوری نظام میں سب سے بڑے منصب پر فائز شخصیت کے ایک ایک لفظ پر خاص و عام ہی کیا دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کی بھی نظر ہوتی ہے۔ یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ ایسی راہ کا انتخاب کرنے سے گریز کیا جانا لازم ہے جس سے نظام بند گلی میں پھنس جائے۔ وزیراعظم کو نہ صرف خود احتیاط کرنا ہوگی بلکہ اپنے بعض رفقا کے ان چند حالیہ بیانات کا بھی نوٹس لینا ہوگا جن سے حکومت کی ساکھ متاثر ہوئی ہے ،زبان و بیان کے اس انداز نے جمہوریت اور نظام کے لئے ہمیشہ مسائل پیدا کئے۔ ایک سے زائد بار یہ ملک جمہوریت اور نظام ایسی بند گلی میں پھنس چکے جہاں سے نکلنے میں کبھی ایک عشرہ اور گاہے اس سے زیادہ وقت لگا۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب بھی بند گلی سے نکلنے کا راستہ ملا جمہوریت کے نام پر وہی طبقہ عوام پر مسلط اور نظام پر قابض ہوگیا جو شخصی آمریتوں کے ادوار میں عوام کی مرضی و منشا کے خلاف غیرجمہوری نظام کی بیساکھی بنا رہا۔36سال سے عملی سیاست میں موجود جناب وزیراعظم کیسے اس حقیقت کو نظرانداز کرسکتے ہیں مہنگائی پر کنٹرول کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے اور یہ کہ مہنگائی کے سیلاب بلا کے آگے بندھ نہ باندھ سکنے کا خمیازہ بھی حکومت کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ وہ اپنے مخالفین کے لئے چور ڈاکو لٹیرے لٹیرے بوٹ پالشی جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ ان سے یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ ساڑھے تین سال کے عرصہ میں انہوں نے قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے اور اپنے الزامات کو ثابت کرنے کے لئے عملی طور پر کیا کیا؟ سرِتسلیم خم کہ ماضی میں بھی بہت سارے قائدین زبان و بیان پر قابو نہیں رکھ پائے لیکن اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ ان قائدین کے لئے عوام الناس کی عمومی رائے کیا رہی اسی طرح یہ بھی سامنے کی بات ہے کہ موجودہ دور میں تو ان ساری زبان دانیوں کے ریکارڈ توڑ ڈالے گئے ۔ وزیراعظم تواتر کے ساتھ یہ کہا کرتے تھے کہ ہمارے پاس مختلف شعبوں کے سینکڑوں ماہرین ہیں اور ہم کم از کم تین ماہ میں ملک کو دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا کردیں گے۔ ساڑھے تین سال کے اس عرصہ میں ملک اپنے قدموں پر کھڑا کیوں نہیں ہوپایا وہ عالمی شہرت کے حامل ماہرین کہاں چلے گئے ؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں کمی ہوئی یا ان میں ماضی کے مقابلہ میں بے پناہ اضافہ ہوا؟ حزبِ مخالف پر گرجنے برسنے اور اس کا تمسخر اڑانے میں سے کچھ وقت نکال کر ان سوالوں پر عوام کو مطمئن کیا جانا چاہیے۔ جس بات کو نظرانداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ دھمکیوں اور تمسخر و تحقیر کے ان مظاہروں سے ہر گزرنے والے دن کے ساتھ یہ تاثر پختہ ہورہا ہے کہ ارباب حکومت سیاسی میدان میں اپنے مخالفین کا مقابلہ کرنے کی بجائے کسی بھی حد تک جانے کو آمادہ ہیں ایسا ہے تو یہ کسی کے لئے بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا۔ مسائل ہیں ان سے کسی کو انکار نہیں مگر مسائل کیسے حل کرنے ہیں یہ سوچنا حکومت وقت کا کام ہے۔ وزیراعظم کے خلاف حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد نظام سے بغاوت یا غداری کے زمرے میں نہیں آتی نہ ہی یہ کوئی عالمی سازش ہے، تحریک عدم اعتماد پارلیمانی روایات کا ہی حصہ ہے اس کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ منتخب ایوان کے ارکان کو کرنا ہے۔ ایوان سے باہر مجمع لگاکر "دیکھ لینے” کی باتیں کمزوریوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔ تواتر کے ساتھ تاریخی معاملات سے بخوبی آگاہی کا تاثر دینے والے وزیراعظم اگر کچھ وقت نکال کر ملکی سیاست کے مختلف ادوار کی تاریخ پر ایک ناقدانہ نگاہ ڈال لیں تو ان پر یہ امر دوچند ہو جائیگا کہ جب بھی جمہوری اقدار اور اصولوں کی نفی ہوئی معاملات منتخب قیادت اور مخالفین کے ہاتھوں سے نکل گئے۔ اس کا ماضی میں جو بھی نتیجہ نکلا وہ سبھی پر عیاں ہے۔ ہمارے خیال میں موجودہ صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی بھی فریق ایسی کوئی بات کہنے سے گریز کرے جس سے تلخی بڑھے اور اس تلخی کا فائدہ کوئی اور اٹھائے۔ زبان و بیان میں احتیاط سے ہی معاملات کو سیدھے سبھائو آگے بڑھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ حکمران اتحاد کے پاس اکثریت موجود ہے تو عدم اعتماد کی تحریک پانی کا بلبلہ ثابت ہوگی۔ باردیگر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ارباب حکومت اور حزب مخالف کے رہنما جوش کی بجائے ہوش سے کام لیں۔ جمہوری عمل کو جمہوری انداز میں ہی آگے بڑھائیں تاکہ نظام پر منڈلاتے خطرات تاریک حقیقت بن کر عوام کے گلے کا طوق نہ بننے پائیں یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب دونوں فریق ایک دوسرے کی سیاسی اور نظام کے اندر جمہوری حیثیت کو کھلے دل سے تسلیم کریں گے۔
پس نوشت :۔پی ڈی ایم کی جانب سے23 مارچ کو مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان تین ماہ قبل کیا گیا تھا یہ کہنا کہ یہ لانگ مارچ او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس کے خلاف سازش ہے یا تحریک انصاف کے اعلان کردہ دس لاکھ افراد کے جلسہ کا جواب حقائق کو مسخ کرنا ہے ، جب پی ڈی ایم نے لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا اگر او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس شیڈول تھی تو اپوزیشن سے بات کی جانی چاہئے تھی لیکن کسی نے بات نہیں کی اب بھی لوگوں کو گمراہ کرنے کی بجائے پی ڈی ایم سے لانگ مارچ کی تاریخ تبدیل کرنے کیلئے بات کرلی جانی چاہئے بجائے للکارے مارنے کے۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''