جھٹکے پہ جھٹکا

ویسے تو اس بدقسمت پاکستانی قوم کو آج تک کسی بھی حکومت کی جانب سے خوشی کی کوئی خبر کم کم ہی ملتی ہے بلکہ الٹا ٹیکسوں کی بھرمارسے اسے مہنگائی کے جھٹکے لگا لگا کر زندگی سے بیزار کیا جاتا رہا ہے’ سابقہ حکومت نے جس طرح تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے حقائق کا ادراک کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے ساتھ خود اپنے ہی معاہدے پر یوٹرن لیتے ہوئے ملکی معیشت کو خطرناک صورتحال اورملک کو ڈیفالٹ کے خطرے سے دو چارکیا ‘ اس کا سارا ملبہ موجودہ پی ڈی ایم کی حکومت نے قبول کرتے ہوئے ملک میں مہنگائی برپا کرنے کے اقدامات اٹھا کر یقیناً اپنے مستقبل کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بجوائیں’ مگر آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کا جادو اب سر چڑھ کربول رہا ہے اور تقریباً ہر مہینے بجلی کے بلوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے عوام کی پریشانی بڑھتی جارہی ہے’ ادھر پٹرولیم کے نرخوں میں اگرچہ عالمی سطح پر مسلسل کمی ہو رہی ہے لیکن اندرون ملک اٹھائے جانے والے اقدامات اس کے علی الرقم نتائج ظاہر کر رہے ہیں یعنی پٹرول کے نرخوں میں بجائے کمی کے اضافہ کیا جا رہا ہے ‘ تازہ ترین صورتحال بجلی کی قیمت میں ایک بار پھر تین روپے 39 پیسے فی یونٹ اضافے سے عوام پرایک اور بجلی بم گرا دیا گیا ہے ‘ اگرچہ لاہور ہائی کورٹ نے چند روز پہلے ہی ایف پی اے کے نام پر وصول کئے جانے والے ٹیکس کو معطل جب کہ پشاور ہائیکورٹ نے اسے منسوخ کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں کیونکہ پشاور ہائی کورٹ میں جواعتراض کیا گیا تھا اس کا لب لباب یہ ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی پانی سے حاصل کرتا ہے اس لئے یہاں کے بجلی صارفین پر فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے تحت ٹیکس لگانے کا کوئی جواز نہیں ہے’ اب دیکھتے ہیں کہ دو ہائی کورٹس کے احکامات کے تحت ایف پی اے کا مستقبل کیا ہو گا’ تاہم یقیناً حکومت کے پاس متبادل راستہ بجلی کی فی یونٹ میں اضافے کا رہ جاتا ہے اور وہ ایف پی اے کے متبادل کی طور پر یہی حربہ استعمال کرتے ہوئے مسلسل قیمت میں اضافہ کرکے اپنے”مقصد” کی تکمیل کرتا رہے گا ‘ لیکن بے چارے عوام کا کیا بنے گا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس ہو بھی تو وہ مصلحتاً خاموش ہی رہے گا کیونکہ ملکی معیشت جس دگر گوں صورتحال سے دو چار ہے اور اس کے ڈیفالٹ کرنے کا خطرہ ہے اس کا کسی بھی حکومت کے پاس مختلف سروسز کے نرخوں میں اضافہ ہی ہو سکتا ہے’ تاہم یہ صورتحال تابکے قائم رہ سکتی ہے اور عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے سے پیدا ہونے والی صورتحال بھی بہرحال توجہ طلب ہے۔
حج کوٹہ میں بے قاعدگیاں
اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں جب اسلامی شعائر کے ایک اہم رکن حج کی ادائیگی کے حوالے سے مسلسل سوال اٹھ رہے ہوں تو اس پر اظہار تاسف ہی کیا جا سکتا ہے ‘ گزشتہ برسوں میں حجاج کرام کو لوٹنے کے حوالے سے اطلاعات سامنے آتی رہیں ‘ خصوصاً حرمین شریفین کے نزدیک رہائش گاہوں کی بکنگ کے لئے زیادہ رقوم وصول کرکے بھی دور علاقوں میں سستے داموں ہوٹلوں اور نجی عمارتوں کے حصول کے بعد جس طرح عمر رسیدہ ‘ بیمار اور کمزور حجاج کرام کووہاں رہنے پر مجبور کیا گیا وہ ایک المیہ تھا اور اس میں ملوث افراد ‘ یہاں تک کہ ان ادوار کے وزرائے حج اوقاف میں سے بھی بعض کو قید وبند کی سزائیں ریکارڈ پر ہیں’ اب تازہ اطلاعات کے مطابق سرکاری حج کوٹہ میں بے قاعدگی اور مقررہ تعداد سے زیادہ بکنگ کی شکایات سامنے آئی ہیں جویقیناً لمحہ فکریہ ہے’ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک اسلامی ملک کے اندر اسلام کے ایک اہم رکن حج کی ادائیگی کو کیوں سوالات کی زد پر رکھا جا رہا ہے’ امید ہے کہ اس حوالے سے غیر جانبدارانہ تحقیقات سے اصل حقائق سامنے لا کر ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
خیبر پختونخوا’ پنجاب حکومتیں توڑنے پرغور؟
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جب سے اقتدار سے محروم ہوئے ہیں مسلسل نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں اپنی حکومتوں کو ختم کرنے کے سوال پر کنی کترا جاتے ہیں یوں قومی سطح پر ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخابات میں فائدہ کا موقع بھی ضائع نہیں کرنا چاہتے جبکہ یہ صورتحال پی ڈی ایم کی جماعتوں کے لئے کسی بھی طور قابل قبول نہیں ہے ‘ اصولی طور پر بھی اگر ملک میں نئے انتخابات ہونے ہیں تو نہ صرف قومی اسمبلی بلکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی ایک ساتھ ہونے چاہئیں’ تاکہ کوئی بھی سیاسی جماعت ان پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں نہ آسکے’ اب تحریک انصاف کے ایک اہم رہنما فواد چوہدری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کی حکومتیں توڑنے پر غور ہو سکتا ہے ‘ جو اس حوالے سے اگرچہ ایک اہم پیش رفت تو ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتیں اس حوالے سے کیا مؤقف اپناتی ہیں ‘ خصوصاً سندھ میں پیپلز پارٹی کا کیا رویہ ہوتا ہے اور بلوچستان کی کیا پوزیشن ہوگی؟

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا