5 311

حال بد گفتنی نہیں، لیکن

خزانہ کی حالت اچھی نہیں، ملازمین مرضی منوانا چاہتے ہیں تو جون تک انتظارکریں، یہ بیان وزیر دفاع پرویز خٹک کا ہے جو انہوں نے گزشتہ روز وزیر داخلہ شیخ رشید کیساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میںدیا، جبکہ شیخ رشید نے فرمایا ہے کہ سیاسی جماعتیں ملازمین کو استعمال کرنا چاہتی ہیں یعنی سبحان اللہ بلکہ بار بار سبحان اللہ کیونکہ شاہراہ دستور پر احتجاج کرنے والے سرکاری ملازمین تو دبی زبان سے یہی گلہ کر رہے ہیں کہ ان کے (جائز) مطالبات میں کسی بھی اپوزیشن جماعت نے حصہ نہیں ڈالا اور ان کیساتھ احتجاج میں شریک نہیں ہوئے حالانکہ زبانی کلامی تو پی ڈی ایم کے کئی رہنمائوں نے ملازمین کی حمایت کرتے ہوئے ان کے مطالبات تسلیم کرنے پر زور دیا ہے اور غالباً میاں نواز شریف نے اپنی ایک ٹویٹ میں سرکاری کارندوں کی جدوجہد میں صرف زبانی ہی نہیں عملی طور پر شامل ہونے کی ہدایت اپنی جماعت کے رہنمائوں اور کارکنوں کو کر دی ہے۔ ادھر وفاقی وزیر شبلی فراز نے کہا ہے کہ تنخواہوں کا مسئلہ جلد حل ہوگا، مظاہرین مطمئن ہوں گے۔ جی ہاں فی الحال تو مظاہرین کو ”ہلکی ہلکی” ٹھکائی کر کے نانی یاد دلانے کا اہتمام کیا جارہا ہے تاکہ اپنے زخم سہلاتے ہوئے وہ آئندہ کیلئے توبہ تائب ہو کر ”سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آوے” کہنے پر مجبور ہو جائیں۔ بہرحال بات پرویز خٹک کے بیان سے ہی شروع کرتے ہیں اور احتجاج کرنے والوں کو جو اصل صورتحال سمجھانے کی انہوں نے کوشش کی ہے اس کی حقیقت کو کھنگالنے کی سعی کرتے ہیں، سرکاری ملازمین اب اتنے بھی بھولے نہیں ہیں کہ وہ صورتحال کو اس کے صحیح تناظر میں جانچ نہ سکیں، یعنی اگر ان کا حافظہ کام کر رہا ہو تو انہیں یاد ہوگا کہ ابھی چند ہفتے پہلے ہی اسمبلیوں کے ممبران نے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرنے میں ایکا کر لیا تھا اور اس پر بھی وہ مجبور یوں ہوئے تھے کہ خود ہمارے وزیراعظم نے اپنی ”محدود” تنخواہ کا رونا روتے ہوئے اس ”قلیل” تنخواہ میں گزارہ نہ ہونے کی شکایت کی تو ان کی تنخواہ ان کی ”حالت زار” کو دیکھ کر دولاکھ سے فوری طور پر 9لاکھ کر دینے کی خبریں آئیں۔ پھر یہی وہ نازک لمحہ تھا جب اراکین اسمبلی کو بھی اپنی ”خستہ حالی” پر رونا آیا، سو رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا کی حقیقت کو جانچے بغیر انہوں نے بھی ”بہتی گنگا” میں ہاتھ دھوتے ہوئے اسمبلی فلور پر کیا حکومتی ارکان، کیا حزب اختلاف کے ہر بات پر اسمبلی فلور کو سرپر اُٹھا کر احتجاج کا ڈول ڈالنے والے، سب نے شیر وشکر اور یک زبان ہو کر خود اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کر کے اپنے آنسو پونچھ ڈالے، ماضی میں بھی یہ روایت اسی خوش اسلوبی، مکمل یک جہتی اور عظیم الشان اتحاد واتفاق سے قائم کی جاتی رہی ہے اور ایسے مواقع پر ”آئیز اور نوز” کا ”آملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک” کا مظاہرہ دیدنی ہوتا تھا، سو اب کی بار بھی ایسا ہی ہوا، اب ظاہر ہے کہ اس اقدام سے خزانہ عامرہ کا جو حشر ہوتا ہے وہ بقول پرویز خٹک خزانہ کی حالت اچھی نہیں ہے جیسے بیانئے ہی میں ڈھونڈا جا سکتا ہے اور یہ جو ابھی چند ہی روز پہلے یعنی سینیٹ انتخابات کے پیش نظر وزیراعظم نے اپنی جماعت کے ممبران اسمبلی کو (بہ شمول ان کے جو حزب اختلاف کے باغی اور حکومت کے حمایتی بن چکے ہیں) نہایت حقیر سی رقم یعنی صرف 50 ,50 کروڑ کے فنڈز دینے کا حکم جاری کیا ہے تو اس سے خزانے کی حالت پتلی ہونے کے امکانات اور خدشات پر کسی شک کے اظہار کی گنجائش کہاں رہتی ہے، اگرچہ فی الحال سپریم کورٹ نے اس کا سوموٹو نوٹس لیکر پانچ رکنی بنچ مقرر کر کے اس قسم کے اقدامات کی آئین کے تحت ہونے کی کسی شق کا سوال تلاش کرنے کیلئے متعلقہ ماہرین آئین وقانون کو یعنی حکومتی ماہرین کو طلب کر لیا ہے اور چونکہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اس لئے اس پر کوئی رائے ظاہر کرنے کی ہماری ہمت نہیں ہو رہی ہے، بس ہم بھی اور جملہ سرکاری ملازمین بھی فیصلہ آنے تک صبر کا مظاہرہ فرمائیں۔ البتہ یہ جو پرویز خٹک نے ملازمین کو جون تک انتظار کرنے یعنی 25فیصد سے زیادہ کے حصول کے برعکس کا مشورہ دیا ہے تو صبر کا یہ دامن صرف جون تک نہیں پھیلانا بلکہ مئی کے آخر یا جون کے کسی بھی دن بجٹ کے اعلان کے بعد یکم اگست تک دراز ہونے کی بات ہے کیونکہ بجٹ میں تنخواہیں بڑھنے کے بعد ان کا اطلاق جولائی سے ہوگا اور پہلی ادائیگی اگست میں ہی ہوسکے گی یعنی بقول عطاء الحق قاسمی
تنخواہ ہے چار سو فی الحال چار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ
والی صورتحال ہوگی۔ رہ گئی یہ موجودہ25فیصد اضافے والی بات تو اس پر آمادگی کے بعد جون میں مزید اضافے کی توقع بھی خام خیالی ہی ہوگی جبکہ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ صرف وفاقی حکومت کا فیصلہ ہے یعنی صوبوں کی مرضی ہے کہ وہ بھی اپنے ملازمین کیلئے یہ مطالبات تسلیم کرتے ہیں یا پھر اپنی اپنی دارالحکومت میں ڈی چوک والی موجودہ صورتحال کی طرز پر صوبائی ملازمین کے احتجاج کا سامنا کرنے اور ان پر بھی ”لاٹھی چارج اور آنسو گیس” آزمانے سے کام چلاتی ہیں۔ بقول میر تقی میر
حال بد گفتنی نہیں، لیکن
تم نے پوچھا تو مہربانی کی

مزید پڑھیں:  ایران کے خلاف طاغوتی قوتوں کا ایکا