1 189

حب الوطنی سے لبریز ایک کالم

تحریر نویس کیلئے یہ بہت عجیب وغریب معاملہ ہے کہ ابھی ڈریپ (ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی) نے دو روز قبل ہی ادویہ ساز اداروں سے کہا تھا کہ وہ مہنگائی کی وجہ سے پیداواری لاگت میں اضافے کی تفصیلات فراہم کریں تاکہ ادویہ کی قیمتوں میں 7سے 10فیصد اضافے کیلئے دی گئی درخواستوں پر کارروائی کرکے 30دنوں میں فیصلہ کیا جا سکے۔ اس حکم اور اس حوالے سے شائع خبروں کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ کل ہی ڈریپ نے ملک اور بیرون ملک تیار ہونے والی 4ہزار سے زائد ادویات کی قیمتوں میں 7سے 10فیصد تک کا اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ 30دن کہاں یہ تو 24گھنٹے سے 48گھنٹوں کے اندر ہی ”چمتکار” ہوگیا۔ کیوں کیسے کس نے نوٹیفکیشن جاری کروایا، کیا بغیر تنخواہ محض حب الوطنی کے جذبہ سے کام کرنے والے ایک مشیر کا اس سے کوئی تعلق ہے؟ راوی خاموش ہے تو ہمیں بکھیڑے میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ ڈریپ کا فیصلہ صریحاً غلط اور چند درجن افراد کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچانے کیلئے ہے۔ کاروباری افراد کا تو سوچا گیا عام صارف کے مفاد کا خیال کسی نے نہیں رکھا۔ نیب کا کیس بنتا ہے یا نہیں اس پر بھی سر کھپانے کی ضرورت نہیں، مان لیجئے کہ مہنگائی سے پیداواری لاگت بڑھ جانے کو جواز بنا کر یہ فیصلہ کیا گیا۔ میں چونکہ ابھی چند دن قبل ہی ”محب وطن” ہوا اس لئے سال بھر پہلے ان کالموں میں اُٹھائے گئے سوال پر زور نہیں دیتا کہ غیرملکی شہریت رکھنے والے وزیراعظم کے بعض مشیران کے عصری مفادات پاکستان سے ہیں یا نئے وطن سے؟ فقیر راحموں کہتے ہیں کہ وزیراعظم تو کہا کرتے تھے پاکستان اتنا خوشحال ہوگا کہ بیرون ملک سے لوگ یہاں ملازمتیں کرنے آئیں گے۔ ابھی تو صرف 5افراد ہی آئے ہیں۔ قومی سلامتی کیلئے مشیر معید یوسف کی تقرری کے وقت بھی عرض کیا تھا کہ وہ امریکی شہری ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی عرض کیا تھا کہ ”ایسا کیوں ہے کہ دو اہم شخصیات کے دورہ امریکہ کے بعد ہماری خارجہ پالیسی خصوصاً کشمیر کے حوالے سے ترجیحات تبدیل اور امریکی شہری قومی سلامتی کا مشیر بن گیا ہے”۔ پچھلے 24گھنٹوں کے دوران دو تین اہم معاملے ہوئے مثلاً فورڈ سیکورٹی کے وفاقی وزیرسید فخر امام منتخب ایوان میں یہ فرماتے ہوئے پائے گئے کہ ابھی تو 66لاکھ ٹن گندم خریدی تھی پھر 6لاکھ ٹن گندم کہاں گئی؟ اچھا ویسے یہ 6لاکھ ٹن گندم صرف 20ارب روپے کی بنتی ہے۔ اربوں اور عربوں کے کھیل سے دور رہنا صحت کیلئے اچھا ہوتا ہے۔ یہ اُمید رکھنی چاہئے کہ وزیراعظم اس امر کا نوٹس لیں گے کہ 6لاکھ ٹن گندم کدھر گئی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ ٹڈی دل کی خوراک بن گئی ہو؟ خیر جو بھی کچھ ہے اگر وزیراعظم نے نوٹس لیا تو انشاء اللہ حقیقت حال عوام کے سامنے ہوگی، اُمید پر دنیا قائم ہے۔ ارے معاف کیجئے گا یہ ہم کس چکر میں پڑ گئے۔ بس جب سے اسلام آباد میں بڑے فارم ہاؤس کی قیمت 50لاکھ روپے پڑھی ہے ذہن میں ستارے ناچتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اچھا یہ عجیب بات ہے اور ہماری نسل کے بچے کھچے شہری اور صحافی دونوں اس سے واقف ہوں گے کہ ہر نئی حکومت یہی کہتی ہے کہ ہم تو پچھلی حکومتوں کا گند صاف کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کبھی کبھی یہ بات وہ شخص کر رہا ہوتا ہے جو پچھلی حکومتوں میں رہ کر گند ڈال چکا ہوتا ہے۔ سیاست بھی عجیب ہے بندہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا سوچتا۔ یہاں پنجاب کے تخت شاہی لاہور میں پچھلے مہینہ ڈیڑھ مہینے سے رنگ روڈ منصوبے کے آخری حصے کے حوالے سے کچھ گرما گرم ”چناچور” فروخت ہو رہا تھا، ایک بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی کے دباؤ پر رنگ روڈ کا کام اس کے باوجود بھی رکا ہوا ہے کہ تمام عدالتی تنازعات ”فارغ” ہو چکے بلکہ عدالتوں نے لکھ دیا ہے کہ ”بحریہ ٹاؤن صاف ہاتھوں کیساتھ ہمارے پاس نہیں آیا تھا”۔ رنگ روڈ کے منصوبے پر وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور ملک ریاض کے درمیان ”پل” بننے والے بیوروکریٹ آصف بلال لودھی کو چند روز قبل ہی دوبارہ کمشنر لاہور لگایا۔ وزیراعلیٰ نے مگر اللہ جانے کیا ہوا ہفتہ کو ادھر وزیراعظم نے لاہور میں قدم رنجہ فرمایا، ادھر آصف بلال لودھی کو پنجاب بدری کا حکم موصول ہوگیا، ان کیساتھ پنجاب کے سیکرٹری سروسز شعیب اکبر بھی صوبہ بدر ہوئے۔ یہ صوبہ بدری روٹین کا حصہ نہیں ہے معاملہ بہت گمبھیر ہے۔ رنگ روڈ کے آخری حصے میں رکاوٹ بنے ہاؤسنگ کے شعبہ کے سب سے بڑے بزنس مین کیلئے سہولت کاری کے فرائض انجام دینے والے اللہ واسطے تو یقینا کچھ نہیں کرتے۔ یہاں معاملہ ایک اور اہم شخصیت کا ہے مگر چونکہ نئی نویلی حب الوطنی کا تقاضہ ہے کہ اس اُڑتی خبر کو نظرانداز کردیا جائے کہ اس اہم شخصیت اور ہاؤسنگ سوسائٹی کے درمیان ”معاملہ” طے نہیں پایا اس لئے پنڈورا باکس کھل گیا۔ ورنہ آصف بلال لودھی اچھے آدمی ہیں جو مل جائے یعنی دال ساگ اس پر قناعت کرلیتے ہیں بلکہ زیادہ خوش خوراک بھی نہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ اس بار ان کے تبادلے کیلئے ”دباؤ” کہیں اور سے تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہاؤسنگ سوسائٹی کیخلاف پنجاب حکومت دوبارہ سپریم کورٹ جاتی ہے یا مسئلہ حل کرنے کیلئے 30ارب سے 35ارب تک کی رقم خوشی سے ادا کرکے رنگ روڈ مکمل کرواتی ہے۔ پتہ نہیں کیوں ہر وقت دھڑکا ہی لگا رہتا ہے کہ کہیں کوئی تیز طرار بیوروکریٹ ہمارے معصوم سے وزیراعلیٰ پر نیب کا کیس ہی نہ بنوا دے۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟