حزب اختلاف اور حکومت دونوں سڑکوں پر

حزب اختلاف کی تیاریوں اور جلسے اور احتجاج کے پروگراموں کا جواب وزیر اعظم نے بھی عوامی اجتماعات کا انعقاد کرکے دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ حکومتی ترجمان کا پریس کانفرنس سے خطاب میں کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی کی عوامی رابطہ مہم ہر گلی اور کوچے کے اندر نظر آئے گی۔اتحادیوں سے تعلقات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے اتحادیوں کو پچھلے تین سال سے بڑے اچھے طریقے سے لے کر چل رہے ہیں اور آئندہ بھی ساتھ لے کر چلیں گے، ہمارے اتحادی ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ اپوزیشن کے اندر قومی اسمبلی اور سینٹ میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کی تعداد ڈھائی درجن سے زیادہ ہے جو جب کبھی عدم اعتماد یا ووٹ ڈالنے کی بات آتی ہے تو وہ غیرحاضر رہتے ہیں یا وہ حکومت سے تعاون کرتے ہیں’ اس لئے ایسی ملاقاتوں سے کچھ نہیں ہوگا۔دریںاثناء پاکستان مسلم لیگ(ن)کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی(سی ای سی)کااجلاس پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے حوالے سے فیصلہ کرنے میں ناکام رہا اجلاس کے دوران نواز شریف نے اجلاس کے شرکاء سے کہا کہ وہ حکومت مخالف تحریک چلانے کے لئے سڑکوں پر آنے کی تیاری کریں۔ان کا کہنا تھا کہ آج کے سی ای سی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ مسلم لیگ(ن)عمران خان کی اس جابر حکومت سے نجات دلائے گی جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت سے جان چھڑانے سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں اور اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مسلم لیگ(ن)سب سے آگے ہوگی۔نواز شریف نے شرکا سے کہا کہ وہ احتجاج کے لئے تیار ہو جائیں’ ساتھ ہی سیکریٹری جنرل احسن اقبال کو ہدایت کی کہ وہ پارٹی کے اراکین اسمبلی کے لئے ورکنگ پلان تیار کریں تاکہ وہ اپنے حلقوں سے لوگوں کو سڑکوں پر لا سکیں۔تاہم نواز شریف نے پیپلز پارٹی کی جانب سے پی ٹی آئی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تجویز کے بارے میں کوئی تفصیلات طلب نہیں کیں نہ یہ کہ کیا اپوزیشن کو یہ اقدام اٹھانے کے لئے مطلوبہ اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔حزب اختلاف کی اگرچہ صورتحال اور حکمت عملی پوری طرح واضح نہیں تاہم اپوزیشن حکومتی اتحادیوں مسلم لیگ(ق)اور ایم کیو ایم کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوششیں ضرورکر رہی ہے۔ایک اہم سیاسی ملاقات کے بعدق لیگ کی قیادت نے سابق صدر آصف علی زرداری کو پیغام دیا ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی مہم جوئی کا حصہ نہیں بن سکتے کیونکہ وہ حکمران جماعت کے اتحادی ہیں اور مسلم لیگ(ق) اور پی ایم ایل این کے درمیان اعتماد کی کمی ہے۔اس اہم ملاقات کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ ہفتے کے اختتام میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور نائب صدر مریم نواز
سے بھی ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران عدم اعتماد تحریک اور مشترکہ لانگ مارچ کا موضوع بھی زیر بحث آنا فطری امر تھااگرچہ حزب اختلاف کی سیاسی مہم جوئی سے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے اور ساتھ ہی لانگ مارچ اور احتجاج کے حوالے سے سرگرمیوں میں تیزی آگئی ہے لیکن صورتحال کا جائزہ لینے سے ایسا لگتا ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں اپنے اعلانات اور ارادوں کے حوالوں سے نہ صرف بے یقینی کا شکار ہیں بلکہ ان میں ملاقاتوں کے باوجودہنوز اعتماد کی کمی ہے ایسی فضا میں تحریک عدم اعتماد لا کر ناکام ہونے سے وزیر اعظم چھ مہینے کے لئے مستحکم ہو سکتے ہیں۔جس کے بعد اتنا عرصہ باقی ہی نہیں بچے گا کہ حزب اختلاف ایک اور عدم اعتماد لائے ایسا لگتا ہے کہ حزب اختلاف سیاست نہیں بلکہ سیاسی بیانیہ بنانے کی دوڑ میںمصروف ہے اور ہر جماعت بیک وقت مربوط لائحہ عمل اور ساتھ ہی تنہا پرواز کی بھی جتن میں ہے حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں خود ایک دوسرے کی حلیف نہیں بلکہ حریف ہی ہیں اور یہی وہ کمزور پہلو ہے جو حزب اختلاف کے کسی بھی دائو کی کامیابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ جس کا فائدہ حکومت کو ہو رہا ہے جس کی طرف وفاقی وزیر اطلاعات نے اشارہ بھی کیا ہے ۔بہرحال حزب اختلاف کی سرگرمیوںکا توڑ کرنے کے لئے سخت تنقید اور مشکلات کا شکار حکومت نے بھی رابطہ عوام مہم کے ذریعے جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت وزیر اعظم حکومتی معاملات کے ساتھ ساتھ عوام میں کم بیک کی حکمت عملی اپنانے جارہے ہیں جو بڑی دلچسپ صورتحال ہے کہ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں اور خود وزیر اعظم دونوں سڑکوں پر ہوں مہنگائی میں اضافہ اور عوامی مشکلات کے تناظر میںخاص طور پر خیبر پختونخوا کے سترہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو سامنے رکھا جائے اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کے موڈ و مزاج کابھی جائزہ لیا جائے تو جلسوں میں وہ رونق اور رنگینی شاید ہی نظر آئے جو تحریک انصاف کے جلسوں کی کامیابی سمجھی جاتی رہی ہے ۔ دوسری جانب حزب اختلاف کو بھی بھرپور عوامی حمایت اور جلسوں کو کامیاب بنانے کا چیلنج درپیش ہے لیکن بہرحال یہاں صورتحال حکومت کے مقابلے میں حزب اختلاف کے لئے قدرے بہتر رہنے کا امکان زیادہ ہے ۔ان تمام سرگرمیوں کا ایک پہلو بہرحال یہ نکلتا ہے کہ صدارتی نظام لانے کے جو شوشے چھوڑے جارہے تھے اب وہ افواہیں جاری سیاسی سرگرمیوں کی شور میں صدائے بازگشت جتنی بھی باقی نہیں رہینگی ۔حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں پارلیمان میں ایک مرتبہ سے زائد اکثریت میں ہونے کے باوجود ناکامی کا شکار ہو چکی ہے ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو سیاسی جماعتیں پارلیمان میں رہ کر تبدیلی نہیں لا سکتیں وہ سڑکوں پر نکل کر ملک و قوم کے لئے کیا کر پائینگی جبکہ وزیر اعظم اقتدار میں رہتے ہوئے اگر عوام کی توقعات پر پوری نہیں اتر سکے تو سڑکوں پر آکر وہ عوام کے لئے کیا کچھ کرپائیں گے۔ یوں ہر دو طرف نتائج مایوس کن ہی دکھائی دیتے ہیں ایسے میں اس ساری جدوجہد کا اختتام بالاخر نئے انتخابات پر ہی منتج ہو گا۔
الیکشن کمیشن کو الزام دینانا مناسب عمل
وفاقی وزیربرائے امور کشمیر اور گلگت بلتستان کے بھائی اور ڈیرہ اسماعیل خان کے میئر شپ کے امیدوار کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر نااہل قرار دیئے جانے پر خیبر پختونخوا حکومت کا اعتراض مناسب نہیں۔الیکشن کمیشن کا فیصلہ کسی طور بھی عجلت میں نہیں آیا اور نہ ہی اسے دبائو کے تحت قرار دینے کی کوئی وجہ ہے اس لئے کہ الیکشن کمیشن بار بار ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے حوالے سے یاد دہانیاں کراتی رہی ہے جس کا مثبت جواب اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیاں جاری رکھنے کے بعدبالاخر الیکشن کمیشن کا فیصلہ آیااسے گردش زمانہ ہی سمجھا جائے گا کہ قبل ازیں حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے الیکشن کمیشن کی پی ٹی آئی کے حق میں ہونے کا الزام لگایا جاتا رہا اور جب ہوائوں کا رخ بدل گیا اور ملک بھر میں حکمران جماعت کو یکے بعد دیگرے ضمنی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دو مرتبہ کی حکومت کا ریکارڈ رکھنے والی حکمران جماعت دوران اقتدار ہی جب خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات میںمطلوبہ نتائج حاصل نہ کر پائی تو الیکشن کمیشن کو نشانے پر لیا جارہا ہے جو مناسب امر نہیں۔جہاں تک الیکشن کمیشن کے فیصلے کا سوال ہے ان کی جانب سے نااہلی کا فیصلہ حتمی نہیں بلکہ ابھی اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کے دروازے کھلے ہیں جس سے قطع نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کی پابندی ہونی چاہئے اور سیاسی عمل پر اثر انداز ہونے سے گریزکرنا تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کسی نشست کی جیت اور ہار کو موت و حیات کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے بلکہ جمہوری رویہ اختیار کرکے ہار اور جیت دونوں کے حوالے سے عوام کا فیصلہ تسلیم کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو کر انتخاب لڑا جائے ۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار