حساب کون دے گا؟

سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ان کے ساتھ جو کچھ کیا گیا اس کا حساب دینا ہو گا۔ لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ ان کے ساتھ پانچ سال سے ناانصافی پے ناانصافی ہوتی رہی مگر کوئی سوموٹو نوٹس نہیں لیا گیا۔ یہ سب جعلی اور من گھڑت مقدمات تھے۔ جو کچھ ہمارے ساتھ کیا گیا پاکستان کی پوری تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو سے ثابت ہو گیا تھا کہ ہمیں کیسے سزا سنائی گئی۔ جسٹس شوکت صدیقی کے بیان سے بھی سب کچھ واضح ہو چکا۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ سزا سنانے کا فیصلہ ایک ہفتے تک ملتوی کیا جائے مگر ان کی استدعا مسترد کر دی گئی۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ مجھ سے انتقام لینا تھا لے لیتے’ پاکستان سے انتقام لینے کا آپ کو کس نے کہا؟ مجھ سے انتقام لیتے لیتے آج آپ نے پاکستان کا بھٹہ بٹھا دیا ہے۔دریں ا ثناء صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ وہی معاشرہ ترقی کرتا ہے جو قانون کی پاسداری میں سب سے بہتر ہے، وہ معاشرہ ترقی کر ہی نہیں سکتا جہاں امیر کے لئے قانون الگ اور غریب کے لئے قانون الگ ہو۔سابق وزیر اطلاعات اور پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)کے رہنما فواد چوہدری نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں فواد چوہدری نے نواز شریف کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف کی پریس کانفرنس اداروں کے خلاف چارج شیٹ ہے۔فواد چوہدری نے مطالبہ کیا کہ بہتر ہو گا اس کا جواب وہی دیں قبل ازیں فواد چوہدری نے کہاکہ اگر پاکستان کو مستحکم اور باعزت ملک بنانا ہے تو غیر منتخب اداروں کو منتخب اداروں کی عزت کرنا ہوگی یہ نہیں ہوسکتا کہ غیر منتخب ادارے منتخب اداروں کو جوتے کی نوک پر رکھیں۔سابق وزیر اعظم ‘صدر مملکت اور تحریک انصاف کے نفس ناطقہ سبھی کے بیانات اور خیالات میں سیاسی اختلافات کے باووجود قدر مشترک امریہ ہے کہ آئین قانون جمہوریت اورعوامی مینڈیٹ کے احترام کے حوالے سے ان میں کوئی اختلاف نہیں البتہ عملی طور پر اور قول و فعل کے تضاد کا بہرحال سیاست میں رواج رہا ہے اور یہی وہ بدعت ہے جس کے سبب ملک میں آئین کی بالادستی سویلینز کاوقار اورحکومتی استحکام کے مسائل رہتے ہیں جو جماعتیں قبل ازیں ان حالات سے بار بار گزری ہیں ان کی سنجیدہ فکری واضح ہے ملک میں سیاسی وجمہوری و حکومتی استحکام کی جوبنیاد میثاق جمہوریت پر مری میں دوبڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے دستخط کئے تھے وہ اس پرعمل پیرا رہے ایسے میں صنم نے ایک اور بت تراش کر سامری جادوگر کا جو کردار ادا کیا اس سے ملک میں ایک مرتبہ پھر سیاست کی و جمہوری نظام لڑکھڑا گئی جس میں عدلیہ کے کردار پر اب تک انگلیاں اٹھ رہی ہیں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے متانت کے ساتھ جوسوالات اٹھائے ہیں اس میں اگرچہ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کاشکوہ تھا لیکن اس کی روشنی میں ان تمام وجوہات اور عوامل کو دیکھنا مشکل نہیں جو ملک میں ایک مستحکم حکومت کی دم رخصت عدم استحکام اور نتیجتاً بعد میں آنے والی حکومت کی مدت اقتدار ادھوری رہنے کا باعث بنے ہم سمجھتے ہیں کہ یہی وہ نکتہ ہے جسے سیاستدانوں کو سمجھنے اور اپنے قول و فعل اور سیاست میں اس کو اولیت دینے کی ضرورت ہے اس وقت جو صورت حال جاری ہے یہ اس امر کا متقاضی ہے کہ سیاست دان کسی عطار کے لڑکے سے دوا لینے کی بجائے معاملات خود ہی طے کریں انتخابات اور حصول اقتدار کی جلدی نہیں ہونی چاہئے نیز اس امر پر کم از کم ہر کسی کو اتفاق اور عملی طور پر اس پر کار بند ہو جاناچاہئے کہ انتخابات شفاف ہوں اور اس کے نتیجے میں جو بھی حکومت آئے اسے تسلیم کیا جائے حزب اختلاف کا اہم آئینی کرداردشمنانہ نہ ہو بلکہ جمہوری ہو حزب ا قتدار بھی حزب اختلاف کو موقع اور اہمیت دے تبھی جمہوری حکومت بغیر کسی سہارے اور بیساکھیوں کے چل پائے گی اور جمہوری نظام کو بھی استحکام نصیب ہو گا فی الوقت کی صورتحال تشویشناک ہے جس میں کسی بھی فریق کی جانب سے جمہوری نظام کے استحکام کا رویہ اور صبر و تحمل کا مظاہرہ نظر نہیں آتا بلکہ اقتدار کے لئے حددرجہ تعجیل ہے اسی طرح کے حالات میں کسی کے حصے میں کچھ نہیں آنے کے حالات بھی ناممکن نہیں سیاسی استحکام کے لئے سب سے پہلے سیاستدانوں کو جمہوری سیاست اختیار کرنے کی ضرورت ہے سابق وزیراعظم نواز شریف نے جو بھگتنا تھا وہ بھگت چکے انہوں نے جو بھوگے سو بھوگے آئندہ کوئی نہ بھوگے تو غنیمت ہو گی مگر اس کے لئے ماحول اور حالات کو ساز گار رکھنا بہرحال سیاستدانوں ہی کے ہاتھ میں ہے وہ کسی بہکاوے میں نہ آئیں او ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جانے کا تلخ تجربہ نہ دہرائیںتب جا کر ہی جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پر چڑھے گی۔ اب مطعون فریقوں کوبھی ہوش کے ناخن لینا چاہئے جتنی مٹی پلید ہو چکی اس پر اکتفا کیا جائے تاکہ مزید مٹی پلید نہ ہو۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں