حصول انصاف کی رکاوٹوں کا معاملہ

چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس مسرت ہلالی نے وکلاء سے خطاب میں کہا ہے کہ فاٹا انضمام کے بعد ہم آبادی کے لحاظ سے سندھ کے برابر ہو گئے ہیں لیکن دوسری طرف ججز کی تعداد آدھی بھی نہیں ہے ۔ پاکستان بار کونسل سے درخواست کی ہے کہ ججز کی تعداد بڑھائی جائے تا کہ عوام کو بروقت انصاف دینے میں مدد مل سکے ۔ صوبے کی جوڈیشری کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایڈیشنل ججز اور فیملی ججز کی تعداد کم ہے جبکہ دیگر ججز ہمارے پاس اس وقت پوری تعداد میں کام کر رہے ہیں ۔ اس کے لئے بھی کوشش ہے کہ ان ججز کی تعداد بڑھائی جائے ۔ کوئی عدالتی نائب قاصد میں کرپشن میں پکڑا گیا تو اس کا ذمہ دار ڈسٹرکٹ جج ہو گا ۔ فیملی کورٹ میں ججز کو طلاق کے لئے نہیں بٹھایا گیا ہے یہ ججز بیوی کے ساتھ ساتھ خاوند کی بات بھی سنیں اور کوشش کریں کہ بات صلح کی طرف جائیں ۔خیبر پختونخوا میں نظام عدل اور انصاف کی راہ کی رکاوٹوں کے حوالے سے چیف جسٹس کی گزارشات قابل غور ہیں جس پر عملدرآمد کی صورت ہی میں صوبے میں عدالتی نظام مستحکم بنیادوں پر قائم ہو سکتا ہے ججوں کی کم تعداد اورمقدمات کابوجھ من حیث المجموع ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے نظام انصاف پر دبائو اور عوام مشکلات کا شکار ہے ۔ چیف جسٹس نے بدعنوانی اور رشوت ستانی کے حوالے سے جو فارمولہ دیا ہے اصولی طور پر اس سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا مگراسے عملی طور پر کرکے کون دکھائے اس کی ضرورت کا شدت سے مدت سے احساس ہو رہا ہے مگر عملی طور پر اس حوالے سے اقدامات کی کمی ہے بہرحال عدلیہ میں احتساب کا عمل کسی نہ کسی طرح جاری ہے جس میں تیزی لانے کی سعی ہونی چاہئے ۔چیف جسٹس کی فیملی کورٹ کے ججوں کومشورہ خاص طور پر اہمیت کا حامل ہے تاکہ خاندان جیسی اکائی کو توڑنے سے بچانے میں عدلیہ جتنا کردار ادا کرسکے وہ اہم ہوگاطلاق سے پیدا شدہ مسائل سے صرف دوخاندان یا افراد ہی متاثر نہیں ہوتے بلکہ پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔توقع کی جانی چاہئے کہ خاتون چیف جسٹس صوبے میں عدالتی نظام کو مزید شفاف اور فعال بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گی اور عوام کو انصاف کی جلد فراہمی کی صورت میں سہولت بہم پہنچائی جائے گی۔

مزید پڑھیں:  بجلی اور گیس لوڈشیڈنگ