حفاظتی اقدامات کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے مطابق انتخابات میں فوج اور سول آرمڈ فورسز (نیم فوجی دستوں )آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت ملک میں فوج تعینات کی جائے گی، فوج کوئک رسپانس فورس کے طور پر حساس پولنگ سٹیشنز کے باہر تعینات ہو گی۔ فوج کی تعیناتی انتخابات کو شفاف اور پرامن بنانے کے لئے کی گئی ہے۔ ضابطہ اخلاق میں کہا گیا کہ افواج پاکستان کی تعیناتی صرف انتہائی حساس پولنگ سٹیشنز کے باہر کی جائے گی آرمڈ فورسز بیلٹ پیپرز، اسٹامپ اور فارم 45 سمیت کوئی انتخابی سامان اپنی تحویل میں نہیں لیں گی۔ واضح رہے کہ ای سی پی نے اس سے قبل وزارت داخلہ سے 275,000 فوجیوں کی خدمات کا مطالبہ کیا تھا جس کا سبب بتایاگیا277000سے زیادہ سکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے، جن میں سے صرف پنجاب میں تقریباً 169,000 کی ضرورت ہے۔امر واقع یہ ہے کہ مختلف انتظامی اور دیگر وجوہات کے علاوہ، حالیہ مہینوں میں سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنانے والے عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے، اور کمیشن نہیں چاہے گا کہ انتخابات کے دن یا اس کے قریب کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہو۔سیاسی رہنمائوں کو نشانہ بنانے کے حملوں کا ایک حالیہ سلسلہ بھی ہے جس میں خیبر پختونخوا میں ہونے والے واقعات خاص طور پر قابل ذکر ہیں گزشتہ روز دہشت گردوں کے جس منصوبے کا سکیورٹی ذرائع نے انکشاف کیا ہے وہ نہایت خوفناک ہے جس کے تناظر میں معمول سے کہیں زیادہ سکیورٹی کے اقدامات کی ضرورت ہو گی مستزاد کچھ سیاستدانوں کو خطرات کا سامنا کرنے کے حوالے سے پہلے ہی انتباہی نوٹ جاری ہوچکے ہیں یہاں بھی خیبر پختونخوا کے سیاسی قائدین کو خطرات سرفہرست بتائے گئے تھے۔ ان حالات میں ریاست کے لیے ضروری ہے کہ وہ سیاست دانوں اور ووٹروں کے لیے الیکشن کے دن اور اس کے لیے ایک محفوظ ماحول فراہم کرے۔کسی تنقید اور تنازعہ بچنے کے لئے تعینات کیے جانے والے فوجیوں کو واضح طور پر ہدایت کی گئی ہے کہ ان کا کردار صرف تحفظ فراہم کرنے اور امن کو یقینی بنانے تک محدودہونا چاہئے ہے۔اور ان کو کسی بھی وجہ سے، پولنگ سٹیشنوں میں داخل نہیں ہونا چاہیے یا ووٹنگ اور ووٹنگ کے بعد کے طریقہ کار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ ماضی میںایک مخصوص تنقید کے تناظر میں ضروری ہو گا کہ2018کے انتخابات کے بعد پیدا ہونے والے تنازعات جیسی صورتحال کی نوبت نہ آئے ضابطہ اخلاق پر سنجیدگی سے عملدرآمد سے اس سے بچا جا سکتا ہے جس کی تاکید مزید کی ضرورت ہے ۔حفاظتی اقدامات تک محدود اورانتخابی عمل سے لاتعلق اور ان کا اپنے تفویض شدہ فرائض کی ادائیگی تک محدود ہونا کسی تنازعے کاباعث نہیں ہوناچاہئے انتخابات سے قبل سیکورٹی فرائض اور ضرورت کے تحت ان کی تعیناتی ہوتی رہی اور بعد میں بدقسمتی سے خواہ مخواہ ان پر نتائج کی تبدیلی میں ملوث ہونے تاخیر اور فارم غائب کرنے کے الزامات لگائے جانے کا معمول ہے جس کا اس مرتبہ اعادہ نہیں ہونا چاہئے سیاسی جماعتوں کو اگر ان حالات میں بھی ان کی تعیناتی پراعتراض ہے تو وہ اس وقت حکومت اور عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں اس کی بجائے بعد میں انگشت نمائی سے سکیورٹی اداروں کے مورال پراثرپڑتا ہے بنا بریں جن جماعتوں اور شخصیات کو تحفظات ہوں وہ ابھی اس کا اظہار کریں بعدمیں تنقید ‘ الزام تراشی اور انگشت نمائی سے زیادہ بہتر وقت انتخابات کی تیاریوں کے موقع پرہے ایسا کرتے ہوئے اس امر کو بہرحال مدنظر رکھنا ہو گا کہ ایسی صورت میں حکومت کے پاس کوئی متبادل ممکن ہو گا یا نہیں یا پھر معترضین کے پاس کوئی ایسا سکیورٹی منصوبہ ہے جس پر عمل کرنے سے حفاظتی اقدامات کے تقاضے پورے ہوں ہر دو صورت کی موجودہ حالات میں ممکن نظر نہیں آتی بنابریں اس انتظام پرقبل از انتخابات و مابعد تنقید بلاجواز ہوگی البتہ بار دگرعرض ہے کہ سکیورٹی اہلکاروں کو سختی کے ساتھ ضابطہ اخلاق کی ہر قیمت پر پابندی کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ کسی کو بھی انگشت نمائی کاموقع نہ ملے۔

مزید پڑھیں:  کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے