حقیقت پسندانہ تبصرہ

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بجٹ پر جامع اور حقیقت پسندانہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کا200 9 ارب کا ٹیکس ریونیو حاصل کرنے کا دعویٰ سراسر ہوائی ہے، ایف بی آر ٹیکس میں گزشتہ مالی سال کے مقابلہ میں 23فیصد اضافہ ہوا ہے، گزشتہ مالی سال میں ساڑھے پانچ ہزار ارب کے قریب ٹیکس جمع کئے گئے، حکومت کے پاس ٹیکس جمع کرنے کا کوئی بہتر میکنزم نہیںانہوں نے تجویز دی ہے کہ آمدن پر ٹیکس لگایا جائے اور زکوٰة اور عشر کا نظام متعارف کروایا جائے۔ عوام حکمرانوں پر اعتبار نہیں کرتے ، انہیں خوف ہے کہ ان کا پیسہ کرپشن کی نذرہوجائے گا۔ موجودہ مہنگائی کی شرح 38فیصد ہے، حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اسے 21فیصد تک لائیں گے، مگر حکومت کے ٹریک ریکارڈ سے ایسا دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا، تمام امیدیں آئی ایم ایف سے بندھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیرخزانہ نے بجٹ تقریر میں پی ڈی ایم حکومت کا موازنہ پی ٹی آئی حکومت سے کیا ، یہ وہی روش ہے جو عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے سنتی آئی ہے ، ملک پر مسلط حکمران جماعتیں اپنی کارکردگی کا موازنہ خطے کے دوسرے ممالک سے کریں ۔صنعت کاروں اور کاروباری طبقے کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھی بجٹ کو ہدف تنقید بنایا ہے یہاں تک کہ خود مسلم لیگ نون کے بعض رہنما بھی بجٹ کے دعوئوں اور وعدوں پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں۔سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ جس طرح حکومت ٹیکس بڑھا رہی ہے اور صوبوں کو پیسے دے رہی ہے، یہ بجٹ پائیدار نہیں۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ سول گورنمنٹ میں آدھے سے زیادہ اخراجات تنخواہوں کے ہوتے ہیں۔بجٹ الفاظ کا گورکھ دھندہ ہوتا ہے جس میں دعوے زیادہ اورعوام سے ہاتھ پوشیدہ رکھنے کے کمال کا مظاہرہ کیا جاتا ہے حزب اختلاف اسے مایوس کن قرار دیتی ے اور حکومت کی دانست میں ان حالات میں اس سے بہتر بجٹ ممکن نہیں ہوتا بد قسمتی سے اب ایوان میں حزب اختلاف موجود ہی نہیں جو کٹوتی کی تحریکیں پیش کر سکے اور عوامی نقطہ نظر بھی سامنے لایا جائے ایسے میں باآسانی بجٹ منظور کرکے حکومت انتخابات میں جائے گی اور آنے والی حکومت کو بجٹ میں مشکلات پیش ہوں تو اس کا حل بھی نکالا جائے گا بالاخر عوام ہی متاثرہ فریق ثابت ہوںگے۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں