حوصلہ افزاء اور حوصلہ شکن

پاکستان نے چترال واقعے پر افغانستان سے سفارتی سطح پر احتجاج کیا ہے۔ افغان سفارتخانہ کے سربراہ کو دفترخارجہ طلب کرکے احتجاجی مراسلہ دے دیا گیا۔ دریںا ثناء نگران وزیرخارجہ جلیل عباس جیلانی نے رواں ہفتے خیبرپختونخوا کے ضلع چترال میں ہونے والے دہشت گردوں کے حملے کو ایک آئسولیٹڈ واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے اس کا افغان حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف کوششوں کے لیے افغانستان کی حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات مثبت ہیں۔اس سے قبل ترجمان دفتر خارجہ نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا تھا کہ طورخم بارڈر کے حوالے سے پاکستان کو تشویش ہے اور اس حوالے سے افغان حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔انہوں نے کہا تھا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان امن اور سلامتی کا بارڈر ہونا چاہیے، پاکستان نہیں چاہتا کہ کاروباری یا عام لوگوں کے لیے بارڈر پر مسائل پیدا کیے جائیں۔آئی ایس پی آر کاکہنا تھا کہ افغانستان کے صوبے نورستان اور کنڑ کے علاقوں گواردش’ پیتگال’ بارغ متل اور بتاش میں دہشت گردوں کی نقل و حرکت اور سرگرمیوں کا پہلے ہی سراغ لگایا گیا اور افغانستان کی عبوری حکومت کو بروقت آگاہ کردیا گیا۔بیان میں کہا گیا کہ افغانستان کی عبوری حکومت سے توقع ہے کہ وہ اپنے وعدے پورے کرے گی اور افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔چترال واقعے کے بعد ضلع خیبر میں طورخم کے مقام پربھی پاکستان اور افغانستان کی سرحدی فورسز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں فرنٹیئر کور (ایف سی)کے اہلکار سمیت 2 افراد زخمی ہو گئے تھے پاکستانی حکام نے کہا تھا کہ فائرنگ کا آغاز افغانستان کی طرف سے کیا گیا تھا۔دوسری جانب افغان طالبان حکومت نے پاکستان پر واقعے کا الزام عائد کیا، افغانستان کے مشرقی صوبہ ننگرہار میں انفارمیشن اینڈ کلچر ڈائریکٹوریٹ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ پاکستانی فورسز نے افغان عہدیداروں پر اس وقت حملہ کیا جب وہ ایکسیویٹر کے ذریعے اپنی پرانی چوکی دوبارہ فعال کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔طالبان حکومت کی وزارت داخلہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ جھڑپ کی وجوہات اور اس طرح کے واقعات روکنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ان سارے حالات و واقعات میں حوصلہ افزاء امر یہ سامنے آیا ہے کہ دیگر علاقوں کی بہ نسبت چترال میں دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کو شکست دینے کے لئے مقامی افراد بھی پاک فوج کی مدد کے لئے کھڑے ہوگئے ہیں۔ چترال کے مقامی نوجوانوں نے اسلحہ گولہ بارود اور خوراک پاک فوج کے اگلے مورچوں تک پہنچائی۔مقامی افراد نے ایف سی کے ونگ کمانڈر کے ساتھ جرگہ کیا اور چترال کے عوام کی جانب سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو ہر صورت شکست دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔نوجوان صرف فوجی سازو سامان کندھوں پر رکھ کرسپلائی میں مدد دے رہے ہیں بلکہ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ طبی شعبے میں مہارت رکھنے والے اور ایک سیاسی جماعت کی معروف شخصیت بھی سرحد کی طرف عازم سفر دکھائی دیئے جو یقینا ہنگامی حالات میں طبی خدمات کی رضا کارانہ انجام دہی کا جذبہ لے کر جا رہے ہوں گے یہ ساری سرگرمیاں صوبے کے دیگر علاقوں کی بہ نسبت سیکورٹی فورسز سے عوام کی جانب سے پورا پورا تعاون کا وہ جذبہ ہے جس کی تحسین نہ کرنا ناانصافی ہوگی جہاں نعروں کی حد تک نہیں عملی طور پر ”فوج اورعوام ایک” کا جذبہ دکھائی دے وہاں کسی بھی بیرونی و خارجی عنصر کا مقابلہ کوئی معنی ہی نہیں رکھتا امر واقع یہ ہے کہ گرم چشمہ کے راستے افغان جہاد کے دوران بڑے پیمانے پر اسلحہ کی سپلائی ہوتی رہی اور چترال میں گھرگھر اسلحہ کی خریداری بھی ہوئی لیکن چترال عسکریت پسندی کے کلچرسے نہ صرف دور رہا بلکہ ضرورت پڑنے پر عوامی سطح پرمسلح دفاع کا جذبہ بھی پوری طرح موجود ہے ماضی میں آزادی کشمیر کی جنگ اور کنڑ وگلگت کی لڑائی میں مقامی افرادکی بڑی تعدادراضکارانہ طور پر حصہ لے چکی ہے ایسا لگتا ہے کہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے یہ امر پاک فوج کے لئے بھی یقینا اطمینان کاباعث امر ہوگا جہاں تک حکومتی پالیسی کا تعلق ہے اگر دیکھا جائے تو دفتر خارجہ اور وزیر خارجہ کے بیانات اور ردعمل میں تضاد ہے علاوہ ازیں بھی موقف کا تضاد ہے جو حیرت انگیز امر ہے عوام کی سطح پر اگر اس قدر ہم آہنگی ممکن ہے تو پھر حکومتی سطح پراس قدر مصلحت پسندی کا مظاہرہ کیوں ہو رہا ہے اور کوئی ٹھوس موقف کیوں نہیں اپنایا جاتا چترال کی سرحد پر باقاعدہ دہشت گردوں کا اجتماع اور حملہ ایسا عمل نہیں جس پر مصلحت غالب آجائے ایک غیر مصدقہ اطلاع بہرحال یہ بھی ہے کہ ٹی ٹی پی کوافغانستان کی سرزمین سے نکلنے کا کہا گیا ہے اور وہ مجبوراً ہماری سرحدوں کی طرف آگئے ہیںاگر یہ اطلاع درست ہے تو بجائے حملہ کرنے کے ہتھیار ڈال کر مطیع ہوکر ان کو واپسی کا مطالبہ کرنا چاہئے تاکہ ان کے حوالے سے کوئی بہتر فیصلہ کیا جا سکے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا