حیدر آباد میں رونما ہونے والا المناک واقعہ

یہ موضوع بڑا نازک اور بے حد حساس ہے۔ لہذا اس پر لکھتے ہوئے بار ہا سوچنا پڑا کہ کہیں ٹھیس نہ لگ جائے آب گینو کو لیکن اس موضوع پر لکھے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں۔
اس حقیقت سے سبھی بخوبی آگاہ ہیں کہ وطن عزیز کا دوسرا بڑا صوبہ سندھ ایک ایسا بے نظیر اور بے مثال صوبہ ہے جہاں مختلف زبانیں بولنے والے افراد اہل سندھ کی رواداری، وسیع القلبی اور وسیع النظری کی بناء پر باہم یک جہتی اور اتحاد و اتفاق کے ساتھ رہتے ہیں۔ بلکہ اب تو ان کے مابین رشتے ناطے اور شادی بیاہ کے معاملات بھی ہونے لگے ہیں۔ بیرون صوبہ سے آنے والے افراد کو سندھ میں مستقل قیام کیے ہوئے ایک طویل عرصہ بیت چکا ہے۔ وہ اپنے اپنے گھروں میں تو اپنی مادری زبان بولتے ہیں لیکن جب وہ سندھی میں لکھتے، بولتے اور پڑھتے ہیں تو ان پر اہل زبان کا گمان ہونے لگتا ہے بیشتر حضرات پر قدیم سندھی بھی رشک کیا کرتے ہیں۔ باہم اکٹھے رہنے کی وجہ سے مزید یگانگت اور ہم آہنگی پیدا ہوگئی ہے بڑے تو بڑے بچے بھی سندھی اپنی مادری زبان کی طرح ہی بولتے دکھائی دیتے ہیں۔ بعض امور میں اختلاف کا ہونا عین فطری ہے۔ کسی معاملے پر ان کے بیچ بحث و مباحثہ بھی ہوجاتا ہے لیکن اس میں شادونادر ہی تلخی جنم لیتی ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ گزشتہ پیر اور منگل کی درمیانی شب کو قاسم آباد حیدر آباد کے علاقے وادھو واہ بائی پاس پر قائم ایک ہوٹل میں کھانا کھانے کے دوران مبینہ طور پر اس ہوٹل کے بیرے کی جانب سے بدتمیزی کرنے کی وجہ سے گاہکوں اور ہوٹل کے مالک کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی جس نے بتدریج خوفناک اور خون ریز تنازعے کی شکل اختیار کرلی یہ دونوں فریقین کے بیچ ایک دوسرے پر لاٹھیوں اور سریوں کے ساتھ حملے کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے بعد دونوں جانب سے بذریعہ آتشیں اسلحہ ایک دوسرے پر فائرنگ کی جانے لگی جس کے نتیجے میں ایک نوجوان ہلاک اور تین زخمی ہوگئے۔ اطلاع کے مطابق بھٹائی نگر قاسم آباد کی حدود میں واقع سلاطین ہوٹل پر 35 سالہ نوجوان ہلاک ہوا اس کا نام بلاول کاکا ولد حسیب گل تھا اور وہ نیو سعید آباد کا رہائشی تھا۔ اس المناک واقعہ کے بعد مرحوم نوجوان کے ورثاء نے اس کی لاش کو قومی شاہراہ پر سات گھنٹے تک رکھ کر قاتلوں کی فوری گرفتاری کے لیے احتجاجی دھرنا دیا جس کے بعد مقامی تھانہ کی پولیس نے واقعہ کا مقدمہ ہوٹل کے مالک شاہ سوار پٹھان ماجد یار پٹھان اور دیگر 10نامزد ملزمان کے خلاف درج کرنے کے بعد ہوٹل مالک کو حراست میں لے لیا۔
ہوٹل مالک اس کے ساتھیوں کے الزام کے مطابق مقتول نوجوان اور اس کے زخمی ساتھی گزشتہ کافی عرصے سے زبردستی بغیر بل ادا کیے کھانا کھایا کرتے اور ان سے بدتمیزی بھی کیا کرتے تھے۔ وقوعہ کے وقت بھی مبینہ طور پر یہی کچھ ہوا جب نوجوان اور اس کے ساتھیوں سے ہوٹل مالک نے بل کی ادائیگی کا تقاضا کیا، عدم ادائیگی پر جو جھگڑا شروع ہوا وہ نوجوان بلاول کاکا کی افسوس ناک موت پر منتج ہوا۔ دونوں فریقین کی جانب سے پولیس پر نااہلی اور غفلت برتنے کا الزام عائد کیا گیا ہے دو موبائلوں میں موجود پولیس افسران اور اہلکار ساری خونیں لڑائی خاموش تماشائی بن کر دیکھتے رہے۔ مبینہ طور پر اگر مقتول بلاول کاکا نے بل کی رقم طلب کرنے پر ہنگامہ آرائی کی بھی تو آخر بدلے میں ہوٹل کے مالک کو یہ اختیار کس نے دیا تھا کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے نوجوان کو قتل اور اس کے ساتھیوں کو زخمی کردے۔ لیکن برا ہو ان فتنہ پرداز اور شرپسند عناصر کا جو اس نوع کے کسی واقعہ کی تاک میں لگے رہتے ہیں تا کہ وہ اس سے اپنے مذموم مقصد کو حاصل کرسکیں۔ ماحول کو کشیدہ اور سنگین اور گمبھیر بنا کر اپنی سیاست چمکا سکیں۔ اس ذاتی نوعیت کے افسوس ناک جھگڑے کو جواز اور بہانہ بنا کر دوسرے روز شرپسند عناصر نے اس کو لسانی رنگ دینے کی مذموم سعی کی اور سندھ کے مزید شہروں میں قائم چائے کے کوئٹہ اور اس طرح کے ناموں والے ہوٹلوں پر پہنچ کر وہاں موجود عملے کو ہراساں اور خوف زدہ کرکے ہوٹل بند کرادیے اور آئندہ ہوٹلوں کو کھولنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں، ہر شہر میں ہر چند کہ یہ عناصر بہت تھوڑے تھے اور سندھ کی اکثریتی آبادی نہ صرف ان سے بالکل لاتعلق رہتی ہے بلکہ اس نے محنت کشوں کو ہراساں کرنے والے فتنہ پرداروں کی شدید مذمت بھی کی، تاہم شرپسندوں کی مذموم سرگرمیوں کا منفی اثر مرتب ہو کر رہا اور اس کے ردعمل میں سندھ سے جانے والے مسافروں کو بلوچستان میں ژوب وغیرہ کے مقام پر گاڑیوں سے اتار کر شرپسندوں نے ان سے تلخ کلامی کی۔ سندھ میں مختلف مقامات پر شرپسندوں نے روڈ رکشوں کو بطور احتجاج بند کرنے کی کوشش کی۔ ہر دو جانب سے نام نہاد فیس بک کے دانشوروں کے ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈہ کرکے فضا کو مزید آلودہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے سوشل میڈیا پر فعل وابستگان نے سچ تو یہ ہے کہ انتہائی مثبت کردار ادا کیا اور کشیدہ ماحول کو بہتر بنانے کے لیے قابل صد تحسین مہم چلائی۔ شرپسندوں نے اندرون سندھ سے کراچی آنے والی ٹرانسپورٹ اور سپرہائی وے اور سہراب گوٹھ کے مقام پر روک کر بلاوجہ ہی بے چارے مسافروں کو ذہنی اذیت اور کوفت سے دوچار کیا۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات