خارجہ امورمیں فرینڈز کی اہمیت

جدید اور قدیم دنیا میں خارجہ امور کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے، حکومتیں داخلہ امور کی بہ نسبت خارجہ امور پر زیادہ توجہ دیتی ہیں، آج کی دنیا میں اس اہمیت میں دو چند اضافہ ہو گیا ہے، اب تو خارجہ تعلقات کو بروئے کار لا کر جنگیں بھی”فرینڈز” کے کندھوں پر بندوق رکھ کر لڑی جا رہی ہیں، اس کی ایک سے زیادہ مثالیں موجود ہیں۔ پراکسی وار بھی دراصل خارجہ تعلقات کے تحت لڑی جانے والی جنگیں ہیں، جن ”فرینڈز” نے کسی مشکل وقت میں ساتھ دیا ہوتا ہے اس کو حق خدمت یا صلہ دینے کیلئے اس کی پشت پناہی کی جاتی ہے، چونکہ جنگیں معاشی مفادات کے تحت لڑی جاتی ہیں اس لئے ممالک کے درمیان تعلقات میں معاشی مفادات کو سرفہرست رکھا جاتا ہے۔ پاکستان معاشی مفادات کے تحت ایک عرصہ تک امریکہ کا اتحادی رہا ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے امریکہ کے پاکستان کے ساتھ رویے میں تبدیلی دیکھنے کو ملی، سابق امریکی صدور اوبامہ اور ٹرمپ کے ادوار میں پاکستان کو امریکہ کی جانب سے سخت رویے کے متعدد اشارے ملے، اب جوبائیڈن کے صدر بننے کے بعد اس پر مہر ثبت ہو چکی ہے، واشنگٹن کی طرف سے واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پاکسان اب ان کی ترجیح نہیں رہا، ہاں ضرورت کی حد تک تعلقات کی گنجائش موجود ہے، ضرورت کے وقت بھی امریکہ کا رویہ دوستانہ کی بجائے حاکمانہ ہوتا ہے، ماضی کی حکومتوں کے برعکس اب حکومتی سطح پر برملا کہا گیا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات برابری کی بنیاد پر ہوں گے، چونکہ امریکہ پاکستان سے اس طرح کے جواب کی توقع نہیں کر رہا تھا سو اس نے پاکستان کی بجائے بھارت کے ساتھ تعلقات کر ترجیح دی، اور پاکستان جو امریکہ کا برسوں سے سڑیٹجک پارٹنر تھا اسے نظر انداز کر دیا گیا۔ نہ صرف نظر انداز کر دیا گیا بلکہ افغانستان میں پاکستان کی قربانیوں کو بھی خاطر میں نہیں لایا گیا، امریکہ نے افغانستان کی ساری ناکامی پاکستان کے سر ڈال دی ہے، پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی کا فائدہ اٹھا کر بھارت نے اپنے آپ کو متبادل کے طور پر پیش کر دیا ہے۔
امریکہ کے جانے کے بعد افغانستان کی کشیدہ صورتحال پورے خطے کیلئے بے چینی کا باعث ہے، طالبان تیزی کے ساتھ افغانستان پر کنٹرول سنبھال رہے ہیں، شاید امریکہ یہی چاہتا تھا کہ انخلا کے بعد خطے کے ممالک کیلئے مشکلات پیدا کر کے جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جوبائیڈن نے پاکستان کے حوالے سے امریکہ کی خارجہ پالیسی کا اعلان کر دیا ہے، اس کا اظہار جوبائیڈن اپنی انتخابی مہم کے دوران ان الفاظ میں کر چکے ہیں کہ امریکہ کا قدیم نظام اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے اور اس کی تعمیر نو کی ضرورت ہے ، بائیڈن کا خیال ہے کہ امریکہ کے اندرونی مسائل بہت ہیں لیکن خارجہ پالیسی اب بھی امریکی اثر و رسوخ کی کنجی ہے جبکہ امریکہ کی نئی خارجہ پالیسی بنانے والی اشرافیہ کا خیال ہے کہ دنیا خود کو منظم رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، اس کا واحد حل عالمی نظام کی تعمیر نو ہے جس چابی امریکہ کے پاس ہیں۔ تعمیر نو میں ڈویلپر کا کردار بھی امریکہ کا ہے، پراجیکٹ ڈائریکٹر بھی امریکہ ہے اور بلڈنگ منیجر بھی امریکہ ہے۔ اس اشرافیہ کا خیال ہے کہ نظام کی تعمیرِ نو نہ کی گئی اور تعمیر نو کے تمام مراحل اپنے ہاتھ میں نہ رکھے گئے تو امریکہ کی جگہ کوئی اور لے لے گا جس سے امریکی مفادات متاثر ہوں گے اور انتشار پھیلے گا۔پاکستان سے متعلق امریکہ کی حالیہ بے اعتنائی کی اصل وجہ بھی یہی پالیسی ہے۔
آج امریکہ اپنی قدیم پالیسی میں تبدیلی لا کر اپنے داخلہ امور کی توجہ دے رہا ہے جبکہ چین امریکہ کی متروک پالیسی کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہے اور خطے کے ممالک کے ساتھ روابط بڑھا رہا ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چین نے کورونا ویکسین کو بھی خارجہ تعلقات کیلئے استعمال کیا ہے اور چین واحد ملک ہے جس نے سب سے زیادہ ویکسین برآمد کی ہے، چین نے بڑے پیمانے پر ویکسین مفت فراہم کی ہے تاکہ وقت پڑنے پر خطے کے ممالک اس کی حمایت میں کھڑے ہو سکیں اور چین کے ساتھ تجارت کو فروغ دے سکیں۔ دیکھا جائے تو امریکہ اور برطانیہ ایک بلاک میں ہیں جبکہ چین اور روس دوسرے بلاک میں ہیں ، پاکستان جیسے دیگر چھوٹے ممالک ان دو بلاک میں سے کبھی ایک کا حصہ بنتے ہیں اور کبھی دوسرے بلاک کا حصہ بننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ دنیا کی اگلی سپر پاور اسے کہا جائے گا جو ملک ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہو گا، امریکہ کی جانب سے چینی کمپنیوں پر پابندیاں اس امر کی عکاسی کرتی ہیں کہ چین کسی طرح بھی امریکہ سے آگے نہ نکلے، ماضی میں جس طرح جنگ کیلئے اتحادی بنائے جاتے تھے اب موجودہ دور میں ٹیکنالوجی اتحاد کیلئے کوشش کی جائے گی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کیلئے مستقبل کے تعین کا بہترین وقت ہے، ارباب حل و عقد ایک بار پھر امریکہ کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی راہ نکالتے ہیں یا خطے کے دیگر ممالک کی طرف اپنے لئے راہ کا تعین کر کے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں۔ پاک چین دوستی کو کسی وقت مثالی کہا جاتا تھا، دعوے اب بھی کئے جاتے ہیں مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاک چین تعلقات میں پہلے والی گرم جوشی نہیں رہی ہے، سی پیک منصوبوں کی سست روی پر چین کو تحفظات ہیں، پاکستان میں چینی انجنیئروں کو نشانہ بنانے پر چینی حکام سخت نالاں تھے، اور یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ چینی کمپنی نے احتجاجاً کام ترک کر دیا اور پاکستان کی طرف سے تحفظ کی یقین دہانی کے بعد دوبارہ کام شروع کیا گیا۔ چین خطے میں پاکستان نہ صرف اہم اتحادی ہے بلکہ پڑوسی بھی ہے اور چین کے علاوہ پاکستان کے تمام سرحدی علاقے محفوظ تصور نہیں کئے جاتے ہیں، سو جدید دور میں فرینڈز کی اہمیت کے پیش نظر پاکستان کو چینی بلاک کا حصہ بننا چاہئے، اس مقصد کیلئے اگرچہ پاکستان کو امریکہ کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن ارباب حل و عقد کو وہی فیصلہ کرنا چاہئے جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو اور جس کے بعد ہمیں پچھتانا نہ پڑے۔

مزید پڑھیں:  ڈونلڈ لو''لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں''