1 193

خبریں اور تبصرے

لیجئے اب ہمیں سمجھایا جا رہا ہے کہ قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف امریکی شہری نہیں بلکہ ان کے پاس صرف گرین کارڈ ہے لیکن یہ نہیں بتایا جارہا ہے کہ معید یوسف پاکستان تشریف لانے سے قبل امریکی ادارے ”یو ایس آئی پی” کے ملازم تھے۔ یو ایس آئی پی امریکی کانگریس کے مینڈیٹ سے کام کرنے والا ادارہ ہے جو امریکی سیکرٹری دفاع (وزیردفاع) اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔ معید یوسف قومی سلامتی کا مشیر بننے سے قبل پاکستان کے حساس اداروں کے ناقد رہے بلکہ اس معاملے میں ان کی زبان دانی کے جو ریکارڈ ”ویڈیوز” محفوظ ہیں انہیں سن کر آپ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ گفتگو کرنے والے پاکستانی شہری امریکی گرین کارڈ ہولڈر ہے یا ”را” کا کوئی افسر اعلیٰ۔ فیصلہ سازوں کا کمال دیکھیں انہوں نے والدین کی خدمت کیلئے پاکستان آنے والے کو اسلام آباد کے ہوائی اڈے سے ”وصول” کیا اور سیدھا مشیر امور قومی سلامتی بنا دیا۔ ”اب کر لو جو کرنا ہے” دوسرے امریکی گرین کارڈ ہولڈر مشیر ڈاکٹر شہباز گل ہیں، آپ حیوانات کے ڈاکٹر ہیں، یہ بھی وزیراعظم کے مشیر ہیں، پہلے پنجاب حکومت کے ترجمان ہوا کرتے تھے تو وزیراعلیٰ کو اپنا ماتحت بتاتے ہی نہیں بلکہ ہمارے عثمان بزدار سے وہی سلوک روارکھتے تھے جو رنجیت سنگھ نے ملتان سے روا رکھا تھا۔ پھر ایک دن وزیراعلیٰ نے ان کی برطرفی کا حکم صادر کر دیا۔ مرحوم نعیم الحق نے پنجاب کے اس وقت کے چیف سیکرٹری اور وزیراعظم کے پرنسل سیکرٹری ہر دو شخصیات کو فون کیا اور درخواست کی کہ برطرفی کا حکم نامہ جاری نہ کیا جائے بلکہ شہباز گل استعفیٰ دے دیتے ہیں۔ یہ مستعفی ہوئے فوراً اسلام آباد پہنچے اور ایوان صدر کے چوتھے فلور پر نعیم الحق کے کمرے میں ڈیرے ڈال لئے۔ نعیم الحق بیمار تھے، انہوں نے ان کی بھرپور خدمت کی، ان کی وفات کے بعد کمرہ اور مقام دونوں حاصل کر لئے۔ امریکی گرین کارڈ ہولڈر کیلئے ایک خاص قانون ہے ملک سے باہر رہنے کا، اس میں رعایت فقط ریاست ہائے متحدہ امریکہ کیلئے خدمات سرانجام دینے والوں کو ملتی ہیں، خیر چھوڑیں ہمیں کیا۔ احتساب کیلئے وزیراعظم کے مشیر شہزاد اکبر کیلئے نیا حکم نامہ جاری ہوا ہے، اب وہ وزیراعظم کے مشیر داخلہ اور مشیر احتساب ہوں گے، درجہ وفاقی وزیر کے برابر ہوگا۔ وزیر داخلہ اعجاز شاہ کیلئے شہزاد اکبر، شہبازگل ثابت ہوتے ہیں یا نہیں مگر ایف آئی اے میں ایک سپریم کورٹ میں موجود توہین عدالت کے ایک مقدمے کے حوالے سے انہوں نے اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا ہے۔ یہ مقدمہ افتخارالدین مرزا نامی ایک مولانا کیخلاف توہین عدالت کے نوٹس کے علاوہ سائبر کرائم کے تحت درج ہے۔ توہین عدالت کے مرتکب مولانا پر الزام ہے (الزام کیا ان کی ویڈیو موجود ہے) کہ انہوں نے ایک تقریر میں ججوں کو پھانسی چڑھانے کیساتھ آصف علی زرداری اور نوازشریف کو اسرائیل کا ایجنٹ قرار دیتے ہوئے آرمی چیف سے مطالبہ کیا ان ”غداروں” کیخلاف کارروائی کریں۔ مولانا اب کہہ رہے ہیں وہ عارضہ قلب کے مریض ہیں بعض ادویات کی وجہ سے ذہن قابو میں نہیں رہتا اور وہ غصے میں آجاتے ہیں، اس لئے انہیں معاف کردیا جائے۔ ہمارے فقیر راحموں 2005ء سے عارضہ قلب کے مریض ہیں، میڈیکل بورڈ کے مطابق ان کا دل عام آدمی یا معمول کے مریض عارضہ قلب سے 50فیصد کم کام کرتا ہے۔ تین دورے بھگت کر اللہ کے کرم سے زندہ ہیں، ادویات بھی ٹھوک بجا کر باقاعدہ کھا رہے ہیں، جب کبھی غصہ آئے تو لائبریری میں کتاب کھول کر بیٹھ جاتے ہیں، مولانا ایسی کونسی دوائیاں کھاتے ہیں جن سے دماغ متاثر ہوا اور غصہ شدید ہو جاتا ہے؟ ارے صاحب! اصل بات تو رہ ہی گئی، ہمارے نئے نویلے مشیرداخلہ جن کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہوگا پر الزام ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز اور سیاستدانوں کیخلاف مولوی افتخارالدین مرزا کی زہریلی دھمکیوں بھری تقریر کے پیچھے وہ اور جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں مدعی بنے وحید ڈوگر ہیں۔ دونوں ایف آئی اے میں پیش ہو کر تردید کر چکے ہیں مگر ضرورت ایک عدد جے آئی ٹی کی ہے جو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرسکے۔ ہمارے دیرینہ ممدوح مخدوم جاوید اختر قریشی الہاشمی (جاوید ہاشمی) نے اگلے روز ارشاد فرمایا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو ”مافیاز” چلا رہے ہیں۔ کاش وہ یہ بھی بتا دیتے کہ وہ مافیا کے کس ٹولے کے کہنے پر نون لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف میں بھرتی ہوئے اور اس پارٹی کے صدر بن گئے۔ ہاشمی صاحب کی ایک حالیہ گفتگو کی بدولت ان کیخلاف ملتان کے تھانہ کینٹ میں سنگین دفعات کے تحت (غداری وبغاوت) کی ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ یہ ایف آئی آر بہرحال آزادی اظہار کیخلاف ہے اب دیکھیں نا یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ وزیراعظم کے ایک مشیر کا بیٹا سوشل میڈیا پر فلاں سیاستدان کو گولی ماردو، فلاں کو فوج دیکھ لے گی کی دھمکیاں دے تو کہیں قانون کا پتہ نہ ہلنے پائے اور ہمارے بھائی جان مخدوم جاوید اختر ہاشمی پاکستانی سیاست وریاست کے اصلی اور وڈے طاقت والے مرکز بارے کچھ کہیں تو مقدمہ بنا دیا جائے۔ جاوید ہاشمی جیسے بزرگوں کی باتیں سننی چاہئیں، غصہ کھا کر مقدمات نہیں بنانے چاہئیں۔ مقدمہ بنانے کے شوقینوں میں حوصلہ ہے تو وزیراعظم کے ایک مشیر کے بیٹے کیخلاف مقدمہ بنا کر دکھائیں جوکہتا ہے فلاں فلاں کو گولی ماردو۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار