خدمت خلق۔ فی سبیل للہ

ہر دور ہر خطہ میں جہاں انسانیت کی تباہی کی سوچ پائی جاتی ہے وہیں پر اتنی ہی شدت سے انسانیت کی خدمت کی سوچ بھی موجود ہے۔ جہاںایک طرف بڑے بڑے اسلحہ بارود، میزائل اور جنگی جہاز ایجاد ہوئے ہیں تووہیں پر انسان کی جان بچانے کے آلات اور مشینیں بھی بنائی گئیں ہیںجس سے انسان کے اندر ہونے والے ہر طرح کے تبدیلی چاہے وہ ظاہر ہویا اندرون خلیوں میں ہوں کھول کر بتائی جاسکتی ہے۔طبی دنیا میں انقلاب آگیا اور یوں انسان کسی پوشیدہ بیماری کے ساتھ ہی قبر میں جانے میں نمایاں کمی آگئی ہے ۔ بنی نوع انسان کی معلوم تاریخ میں جہاں جنگیں مسلط کرکے لاکھوں لوگوں کو واصل جہنم کیا جاتارہا ہے وہیں پرطرح طرح کی بیماریوں کا علاج کر کے کروڑوں انسانوں کو موت کے منہ سے نکالا جاچکا ہے ۔ بلکہ یہاں تک ہواکہ انہی جنگی ہتھیاروں سے جو معذورہوا تو ٹیکنالوجی کی ترقی نے انہیں پھر سے چلنے پھرنے کے قابل بنایا۔ اسی ٹیکنالوجی کی بدولت اب لوگ اتنی زیادہ تعداد میں بھوک اور افلاس سے دوچار نہیں۔ ٹیکنالوجی کے آنے سے پہلے انسان اپنی پوری قوت لگا کر صرف اپنے اہل و عیال کے لئے ہی سال بھر کا اناج اگا سکتاتھا اور چند مخصوص پالتو جانوروں کی مدد سے اسے کھانے کے قابل بناتے تھے۔ پھر ٹیکنالوجی اور مشینوں کی مدد سے نہ صرف فصلوں کی پیدوار بہت زیادہ ہوگئی بلکہ اسے کھانے کے قابل بنانے بلکہ محفوظ کرنے کے لئے بھی سائنسدانوں نے بھر پور محنت کی اور یوں انسانیت کی خدمت میں کارہائے نمایاں انجام دیئے۔
خدمت خلق کے دو تصور ہیں ایک وہ ہے جو آفاقی ہے اس کا تعلق کسی خاص مذہب، نسل ، قوم ، علاقہ یا ملک سے نہیں ہے ۔لیکن ہمارے پیارے مذہب اسلام اس میں بہت نمایاں اور اہم تصور ہے حضور پاک ۖ کی حدیث ہے کہ”لوگوں میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچائیں”۔ ایک اور حدیث پاک ۖ ہے کہ” یہ تمام مخلوقات جو ہیں اللہ کے کنبہ کی مانند ہیں” یوں ان کے ساتھ محبت کرنا ان کی خدمت کرنا ان کے لئے آسانیاں پیداکرنا اللہ سے محبت کا تقاضا ہے ۔ میری نصف صدی کی عمر میں یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ انسان بنیادی طور پر دوسرے کوتکلیف میں نہیں دیکھ سکتاہے اسی لئے چند سولوگ اور کوئی ایک قوم انسانوں کو تباہی میں دھکیلنے کے لئے کوشاں ہیںتو ہزاروں سینکڑوں انسان دوسرے انسانوں کو آسانیاں مہیاکرنے کے لئے کوشاں ہیں ۔ اقوام متحدہ بننے کا مقصد بھی یہ ہی تھا کہ اگر کوئی ایک قوم یا ملک کسی دوسری قوم و ملک پر اگر ظلم و ستم کرے اس پر جنگ مسلط کردے توسب سے پہلے تو طاقتور کو روکا جائے اور اگر طاقتورقابومیں نہ آرہاہواور وقت درکار ہو تو اس وقت تک کم از کم کمزور اور غریب ملک کی داد رسی کی جائے اس کے عوام کو کھانے پینے اور صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ اس کے بعد پھر میں نے اور آپ نے یہ بھی دیکھا کہ خدمت خلق اور مدد کا جزبہ چند افراد نے اپنے سر لے لیا جن میں مدر ٹریسا، انصار برنی ، عبدالستار ایدھی،الخدمت ‘ شوکت خانم ، سہاراٹرسٹ اور چھیپہ وغیرہ (یہ ایک لمبی فہرست ہے جبکہ میرا کالم کا احاطہ اجازت نہیں دیتا کہ سب کے نام لکھے جاسکیںلہٰذا جن کے نام رہ گئے ہیں وہ بھی اس میں شامل سمجھے جائیں ) نے بھی یہ کام شروع کردیا، جو بڑھتے بڑھتے پھر ایک باقائدہ تنظیم کا روپ دھارگئی یوں خدمت خلق یہ چراغ سے چراغ جلنے سے روشنی بڑھتی ہی چلی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ سیاسی تنظیموں نے بھی اپنے ساتھ ساتھ خدمت خلق کی ذیلی تنظیمیں بنانی شروع کیں اور ان سماجی تنظیموں کا مقصد سیاست ، رنگ ، نسل اور قوم سے بالاترہوکر فقط انسانیت کی خدمت کے جزبہ سے کام کرنا شروع کیا اور اب کچھ تنظیموں کے اہداف لاکھوں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپوں تک پہنچ گئے ہیں ۔
گزشتہ دنوںمجھے ایسی ہی ایک تنظیم کے فنڈریزینگ پروگرام میں جانے کا اتفاق ہوا ۔ الخدمت فائونڈیشن گو کہ جماعت اسلامی کی ذیلی شاخ ہے لیکن وہاں پر موجود حاضرین میں ہر سیاسی جماعت کے لوگ نہ صرف شامل تھے بلکہ ان کے کام کو سراہ بھی رہے تھے۔ شام کو یہ پروگرام شروع ہوا اور لوگوں نے بڑھ چڑھ کر چندہ کی مہم میں حصہ لیایوں رات گئے تک چندہ لاکھوں سے کروڑوں تک پہنچ گیا۔ چندہ دینے والوں کا شوق دیدنی تھا ان میں جہاں بچے بوڑھے جوان شامل تھے وہاں پر خواتین نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ بطور ایک تجزیہ نگار کے مجھے ایک جگہ بیٹھ کر سکون نہیں آرہاتھا لہٰذا ساراپنڈال گھوم کر چیدہ چیدہ لوگوں سے ملا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ہر طبقہ فکر کے لوگ موجودتھے، شاعر، ادیب ،فنکار ، تاجر ، دکاندار، صحافی اور اساتذہ بھی اچھی بڑی تعدادمیں شریک تھے۔ جب مختلف مکتبہ فکر اور مختلف عمروں کے لوگوں ایک دوسرے سے بڑھ کر چندہ دیتے دیکھا تو میرے دل سے دعا نکلی کہ یا اللہ اس وطن عزیز میں اس طرح چندہ دینے اور اس چندہ کو صحیح طریقے سے ضرورت مندوں تک پہنچانے والوں کو اس کا اجر دے اور اسی جذبہ سے سرشار ہمارے سیاسی رہنمائوں کو بھی کردے تاکہ یہ ملک دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرے یوں کم از کم غربت کی لکیر سے نیچے نہ جانے پائیں۔

مزید پڑھیں:  تزئین و آرائش بعد میں ،پہلے شہر بچائو