خطرے کا شکار خیبر پختونخوا کا سیاسی ماحول

اگرچہ اخبارات میں جے یوآئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے قافلے پر دو اطراف سے فائرنگ کی اطلاعات رپورٹ ہوئی ہیں اور ان کے ترجمان کے بیان سے بھی اس امرکا عندیہ ملتا ہے گویا جے یوآئی کے قائد کے موٹر کاروںکے قافلے پرحملہ ہوا ہو جس میں وہ محفوظ رہے تاہم بعد میں ان کے بھائی اور سوشل میڈیا نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ اس وقت مولانا فضل الرحمن قافلے کے ساتھ نہیں بلکہ گھرمیں تھے جس سے مغالطہ پیدا ہوا بہرحال جوبھی ہو اور جے یوآئی کے قائد موجود تھے یا نہیں بہرحال جے یوآئی کے قافلے پرحملہ ضرور ہوا ہے ۔مولانا فضل الرحمن کودرپیش خطرات کے حوالے سے وزارت داخلہ نے دودن پہلے ہی انتباہی مراسلہ جاری کیا تھا جبکہ مولانا فضل الرحمن خود باربار اس امر کا اظہار کر چکے ہیں کہ ان کو اور ان کی جماعت کو انتخابی مہم چلانے اور سیاسی روابط میں رخنہ مشکلات اور خطرات کا سامنا ہے ۔ گزشتہ انتخابات اور بعدازاں بھی جے یوآئی کے لئے سیاسی اجتماعات محفوظ نہیں بلکہ پرخطر چلے آتے رہے ہیںخاص طور پرباجوڑ میں جے یوآئی کے اجتماع پرحملہ نہایت خونریز اور بھاری جانی نقصان کا باعث تھاجس کے بعد بلوچستان سے جے یوآئی کے ایک مقتدر رہنما کو بھی بم حملے کا نشانہ بنایاگیا باربار کے واقعات سے اس امرکااظہار ہوتا ہے کہ بعض قوتیں خیبر پختونخوا میں بطور خاص انتخابی ماحول کو مکدر کرنے کی منصوبہ بندی رکھتی ہیںنیز دہشت گردوں کی جانب سے جے یو آئی اور اے این پی کو ممکنہ اضافی خطرات ہیںبدقسمتی سے ماضی میں بھی ان کو اور ان کی جماعتوں کو سیاسی سرگرمیوں کے لئے محفوظ ماحول نہ ملنے کایہ دوسرا موقع ہے گزشتہ انتخابات کے موقع پربھی خیبرپختونخوا میںان سیاسی جماعتوں خاص طور پر اے این پی کے امیدواروں کو نشانہ بنایاگیا تھا اور بطور جماعت اسے سیاسی میدان میں خطرات سے بے نیاز ہوکر مقابلے کا موقع نہ ملا اسی طرح جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کو جس طرح تاک کر نشانہ بنانے کی سعی ہو رہی ہے اور ان پر گزشتہ انتخابات کے دوران خود کش حملہ بھی ہو چکا ہے ماضی میں اور حال ہی میں باجوڑ میں جمعیت کے اجتماع کو جس طرح نشانہ بنایا گیا اس سے اس امر کا واضح اظہار ہوتا ہے کہ ان کی جماعت کے ساتھ کسی دہشت گرد گروپ کی بطور خاص مخاصمت ہے ان حالات میںہر دو سیاسی قائدین اور ان کی جماعتوںکے اجتماعات کو بطور خاص محفوظ بنانے کے لئے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہو گی جس کے لئے پولیس کواپنے بنیادی فرض کی ادائیگی کے لئے یکسو بنانے کی ضرورت ہے تاکہ سیاسی قائدین اور سیاسی جماعتوں کو ان کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری میں بھی کوتاہی نہ ہو۔خیبر پختونخوا پولیس کو بطور محکمہ از خود جس دبائو کا سامنا ہے اور جن حالات سے وہ دو چارچلی آرہی ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں تاہم اطمینان کاحامل امر یہ ہے کہ غیر قانونی افغان باشندوں کے اخراج کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے اور دوسری جانب افغان عبوری حکومت کی جانب سے بھی مثبت تعاون کاتاثر بھی راسخ ہور ہا ہے جو خوش آئند اور دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے ۔ صوبے میں آٹھ فروری تک جس تندہی کے ساتھ حالات کوقابو میں رکھنے کا تقاضا ہے اس میں کوتاہی کی گنجائش نہیں۔امن و امان کی صورتحال خیبر پختونخوا کی ترجیح نہ ہونا مایوس کن صورتحال اور خطرات میں اضافہ کا باعث امر ہے نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اجلاسوں پر اجلاس کا شوق کرتے ہیں مگر امن و امان بارے اجلاس اس کی ترجیح نہیںخیبر پختونخوا کی نگران حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تمام معاملات کو ایک طرف رکھ کر صوبے میں انتخابات کے پرامن انعقاد پر توجہ مرکوزکرے گزشتہ روز کا واقعہ بطور خاص تشویش کا باعث امر اس لئے بھی ہے کہ ابھی امیدواروں کی کاغذات نامزدگی کی منظوری و مسترد کرنے کا ابتدائی عمل جاری ہے اور صوبے میں پوری طور پر سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہونا ہے جس کی ابتداء ہی ایک سیاسی جماعت کے قائد کے قافلے پرحملے سے ہو جس میں خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان تو نہ ہو ا مگر خطرات کے باوجود اس طرح کے حملے کی روک تھام کے پیشگی اقدامات بھی نہ کئے جا سکے اس واقعے کی اصل حقیقت تو حملہ آوروں کی گرفتاری کے بعد ہی سامنے آسکتا ہے لیکن چونکہ موقع پر پولیس کی جانب سے ملزموں کا پیچھا کرنے کی کوئی اطلاع نہیں نیز دور دراز علاقے میں شایدہی کوئی سی سی ٹی وی فوٹیج دستیاب ہو علاوہ ازیں ملزمان کوفرار کے پورے مواقع دستیاب ہوں ایسے میں اس واقعے پر پردہ پڑا رہنے کا امکان زیادہ نظر آتا ہے جس سے قطع نظر اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جے یو آئی کے جانثاران اپنے قائد کے تحفظ کے لئے خود بھی سنجیدہ ہوںاور قیادت کی جانب سے بھی احتیاطی تدابیر میں مزید سنجیدگی اور حساسیت اختیار کی جائے ۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بطور خاص خطرات کی زد میں آنے والی سیاسی قیادت ان کے قافلوں اور اجتماعات کے تحفظ کے اقدامات کی ذمہ داری نبھانے کی ضرورت ہے صوبے میں خدانخواستہ کوئی بڑاواقعہ رونما ہوا توپھر انتخابات کا انعقاد ہی شاید ممکن ہو سکے صورتحال پر سنجیدگی سے توجہ اور اقدامات ہی بچائو کی بہتر تدبیر ہوگی۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے