خلاف قانون عمل کیوں؟

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شفقت اللہ خان نے اٹک جیل کا دورہ کرنے کے بعد اپنی انسپکشن رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)کے چیئرمین عمران خان کو جیل کے جس سیل میں رکھا گیا ہے اس کے سامنے سی سی ٹی وی کیمرہ نصب ہے۔رپورٹ کے مطابق جج نے عمران خان کے سیل کا دورہ کیا اور جائزے کے دوران پرائیویسی اور جیل کے اندر دی گئیں سہولیات کے بارے میں انتہائی تشویش کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی شکایات مکمل طور پر درست ہیں اور انہیں اس حالت میں رکھنا پاکستان پریزن رولز 257 اور 771 کی صریح خلاف ورزی ہے۔پی پی آر کے متعلقہ 257 (بیت الخلا کے استعمال اور غسل کے انتظامات سے متعلق) کے تحت قیدیوں کو غسل کرنے اور لیٹرین کے لئے پرائیویسی یقینی بناتے ہوئے مناسب سہولت فراہم کی جائے گی۔اسی طرح رول 771 بیت الخلا کے حوالے سے ہیں، جس میں واضح کیا گیا ہے کہ بیت الخلا کا فرش اونچا ہو اور مناسب تزئین و آرائش ہو، ہر بیت الخلا میں باقاعدہ سیٹ اور پرائیویسی کے لئے انتظامات ہوں۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کو کن مقدمات میں گرفتار کیا گیا ہے وہ ایک قانونی معاملہ ہے اور مقدمات کے چلنے اور فیصلہ ہونے کا عمل قانون کے مطابق ہوگا اس کافیصلہ عدالتیں کریں گی اس وقت وہ عدالتی احکامات پر قانون کے قیدی ہیں لہٰذا قانون کے حرف حرف پرعمل کرکے سلوک ان کا حق ہے قیدیوں کے حقوق کے حوالے سے اور جیلوں میں قیدیوں سے قانون کے مطابق سلوک ان کا بنیادی حق ہے جس کی خلاف ورزی کی مسلسل شکایات آتی ہیں ججوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً جیلوں کے دورے ضرور ہوتے ہیں لیکن ان کو شکایات کی بجائے سب اچھا کی رپورٹ ملتی ہے تحریک انصاف کے قائد عمران خان سابق کپتان اور سابق وزیر اعظم ہونے کے ساتھ مقبول عوامی جماعت کے قائد اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ہیں ان کو اس تناظر میں جو بھی رعایت سہولیات اور مراعات حاصل ہونی چاہئیں اس ضمن میں کوتاہی انتقامی کارروائی کے ضمن میں شمار ہوں گے جس کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے تھی معزز جج کی جانب سے جورپورٹ دی گئی ہے اس کے بعد اصلاح احوال کا عمل اپنی جگہ گرفتاری کے بعد سے اب تک ان کے ساتھ معاندانہ سلوک کیوں روا رکھا گیا اس پر جیل حکام کے خلاف تحقیقات اور کارروائی ہونی چاہئے ۔ہر قیدی سے قانون کے مطابق سلوک ہی انصاف کاتقاضا ہے جس میں اونچ نیچ کی گنجائش نہیں۔

مزید پڑھیں:  منفی ہتھکنڈوں سے اجتناب کیجئے