1 340

خوبصورت موڑ؟

اس ملک کی سیاسی تاریخ میں مستقل صفحہ بھی ایک ہے اور اس پر رقم پیرا گراف بھی ایک ہے، باقی جو کچھ الگ صفحوں کی شکل میں بکھرا بکھرا نظر آتا ہے فقط اسی کی فوٹو کاپیاں ہیں۔ قطع نظر اس بات کے کون کس کا ”ہم صفحہ” ہے اہم بات یہ ہے کہ آصف علی زرداری اور شہباز کا صفحہ ایک ہے۔ شیخ رشید، پیر پگارہ مرحوم کی زبان میں ازراہ تفنن کہا کرتے تھے کہ میری اور شہباز شریف کی ایک پارٹی ہے، کچھ یہی معاملہ اس وقت شہباز شریف اور آصف زرداری کا ہے۔ دونوں اس سسٹم کیساتھ چلنا اور اس سسٹم کو چلتے دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ فی الحال موسم کی رُت بدلنے کا امکان نہیں ہے۔ دونوں یہ سمجھ چکے ہیں کہ ان کے نصیب کی بارشیں مزید ایک مدت تک بنی گالہ کی چھت پر برستی رہیں گی۔ اس وقت مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمان دونوں منقا زیرپا ہیں، بلاول کا دل بھی انہی کیساتھ دھڑک رہا ہے۔ بلاول کی اُڑانوں کا مقصد اپوزیشن کا میدان دوسروں کیلئے خالی نہ چھوڑنا ہے یا وہ صدقِ دل سے سب کچھ بھسم کر دینے پر یقین رکھتے ہیں یہ ایک معمہ ہے۔ مولانا اور مریم نواز کی حد تک تو یہ طے ہے کہ وہ پرانے حساب چکانا چاہتے ہیں خواہ اس کی کوئی بھی قیمت ہو۔ انہیں سسٹم سے سردست کوئی ہمدردی نہیں کیونکہ اس سسٹم نے فی الوقت انہیں دیا ہی کیا ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اپنی بات کہنے کے قابل بھی نہیں تو ایسے کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا ڈالنے میں ہی ان کی عافیت ہے۔ پارلیمنٹ سے اجتماعی طور پر استعفوں کی سوچ کے پیچھے سب کچھ جلا ڈالنے کے دلوں میں مچلتے ارمان ہیں مگر ان جماعتوں میں سب ایسا نہیں سوچتے۔ پی ڈی ایم نے حکومت کیخلاف جو جذباتی فضاء بنانے کی کوشش کی اس کا فیصلہ کن مرحلہ پارلیمنٹ سے استعفیٰ تھا کیونکہ چند ہزار کے پرامن جلسے جلوس سے کوئی حکمران گھر تو نہیں جاتا۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ مریم نواز نے اعلان کیا کہ ان کے پاس استعفوں کا ڈھیر لگ گیا ہے جس سے یہ اُمید بندھ گئی تھی کہ اب استعفوں کی بوریوں سے سپیکر کا دفتر بھر جائے گا۔ استعفے کی ان باتوں سے جذباتی ہوکر یا رنگ محفل جمانے کی خاطر مسلم لیگ ن کے دواہم ارکان قومی اسمبلی نے استعفے بھی سپیکر کی جانب داغ دئیے۔ ارکان دھڑا دھڑ استعفے لکھ لکھ کر قیادتوں کو پیش کرنے لگے، روز خبریں آنے لگیں کہ آج فلاں پارٹی لیڈر کے پاس اتنے استعفے جمع ہوگئے۔ استعفوں کے اس عمل میں پی ڈی ایم کی چھوٹی بڑی سب جماعتیں شامل تھیں مگر تین بڑی جماعتوںکا جوش وخروش دیدنی تھا۔ تین یوں بھی حرف معترضہ ہے کہ پیپلزپارٹی پہلے ہی استعفوں کے نام پر آنکھ مچولی اور چھپن چھپائی کھیل رہی تھی اور سیاسی پنڈت پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ پیپلز پارٹی اپنی روایتی حریف جماعت کو سیپیکر کے دروازے تک چھوڑ کر لوٹ آئے گی۔ یہاں تو معاملہ اُلٹ ہوا کہ پیپلزپارٹی نے ن لیگ کو سپیکر کے دفتر سے خاصی دوری پر ہی الوداع کہہ دیا۔ شاید پیپلزپارٹی کی اس الوداعی انداز کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ ن کے دو ارکان بھی اپنے استعفے واپس لینے پر اصرار کرنے پر مجبور ہوئے اور انہوں نے بہ نفسِ نفیس سپیکر کے سامنے پیش ہو کر کہا کہ یہ استعفے ان کے کسی ہم زاد نے دئیے ہوں تو ہوں مگر خود ان کا استعفوں سے کوئی تعلق نہیں۔ گڑھی خدابخش میں بینظیر بھٹو شہید کی برسی میں آصف علی زرداری کی معنی خیز تقریر میں اہل فکر کیلئے بہت کچھ تھا۔ اس تقریر میں بلاول بھٹو زرداری اور مریم نوازشریف کیلئے پند ونصائح تھے۔ وہ دونوں کو اپنے تجربات سے سیکھنے کا اشارہ دے رہے تھے۔ وہ ان دنوں کو یاد دلارہے تھے جب انہوں نے کمال مہارت سے جنرل مشرف کو ایوان صدر سے دودھ سے بال کی طرح نکال باہر کیا تھا۔ آصف زرداری جس جنرل مشرف کو مکھن کی بجائے دودھ سے بال کی طرح نکالنے کا زمانہ یاد دلا رہے تھے وہ جنرل مشرف اس وقت بے بال وپر ہو چکے تھے، وردی کی شکل میں ان کی کھال اُتر چکی تھی، ڈھائی فٹ کی چھڑی کی صورت ان کی طاقت چھن چکی تھی، ان کے اقتدار کو سیاسی بیساکھی اور قانون سازی کا تحفظ دینے والی حکمران جماعت ق لیگ ناکامی سے دوچار ہو چکی تھی۔ اس ساری صورتحال پر جنرل مشرف کا یہ جملہ اہم تھا کہ میں ایوان اقتدار میں سڑھی ہوئی سبزی بن کر نہیں رہوں گا۔ ایک تھکے ہارے اور حالاتِ زمانہ کا شکار ریٹائرڈ جنرل کو ایوان صدر سے دودھ سے بال کی طرح نکالنا کوئی کمال نہیں تھا۔ جب تک جنرل مشرف اوجِ کمال پر تھے۔ آصف زرداری ملک سے ہی باہر رہے۔ یوں آصف زرداری پی ڈی ایم کے دونوں جواں سال لیڈروں کو بتا رہے تھے کہ ابھی عمران خان کو اقتدار سے باہر نکالنے کا وقت نہیں آیا اور اس کیلئے جیلیں بھرنا پڑیں گی گویا کہ حکومت کا دھوبی پٹڑا اپنی جگہ موجود ہے۔ جیلوں کی قباحت یہ ہے کہ وہاں مچھر کاٹتے ہیں۔ اس طرح پی ڈی ایم کی اہم جماعت استعفوں سے بہت خوبصورتی سے یوٹرن لے چکی ہے اور شاید یہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے تعلقات اور استعفوں کے افسانے کا وہ موڑ ہے جس کا ذکر ساحر لدھیانوی نے اپنی مشہور نظم ”خوبصورت موڑ” میں یوں کیا ہے
وہ افسانہ جسے ایک انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا

مزید پڑھیں:  سرکاری و نجی ہائوسنگ سکیموں کی ناکامی