خود احتسابی کی ضرورت

1973 کے دستور کی منظوری کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر قومی اسمبلی کے ایوان میں مرکزی تقریب کا انعقاد خوش آئند ہے۔ دستور کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر ارکان پارلیمان زندگی کے دوسرے شعبوں کے ذمہ داران سمیت ہر خاص و عام کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ دستور جس سماجی وحدت کی دعوت کے ساتھ مذہبی، سیاسی، معاشی اور شہری آزادیوں کی ضمانت دیتا ہے۔ ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ 1973 کا آئین بھی دوبار طالع آزمائوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوکر معطل ہوا مگر اس سے زیادہ المناک بات یہ ہے کہ دستور نے پاکستان کے اندر بسنے والے لوگوں کو جن حقوق کی فراہمی کی ضمانت دی تھی لوگ آج بھی ان سے محروم ہیں۔ دستور وسائل کی منصفانہ تقسیم کی یقین دہانی کراتاہے مگر یہاں مجموعی وسائل پر چند طقبات قابض ہیں۔ بانیانِ پاکستان ایک جمہوری فلاحی ریاست کی باتیں کرتے تھے مگر اس ملک کو تجربہ گاہ بنادیا گیاہے۔ دستور کی پچاسویں سالگرہ کی مناسبت سے منعقدہ تقریب میں مقررین نے یقینا اہم باتیں کیں مگر جس اہم بات کو وہ نظرانداز کرگئے وہ یہ سوال ہے کہ فیڈریشن اور اس کی اکائیوں میں موجود بداعتمادی کیسے ختم ہوگی اور یہ کہ فیڈریشن اپنی موجودہ شکل میں جس عدم توازن کا شکار ہے یہ عدم توازن دور نہ کیا گیا تو منفی جذبات میں اضافہ کس صورتحال سے دوچار کرے گا؟۔ پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں مساوات کا جو اصول نمائندگی کی صورت میں ہے وہ انتظامی اداروں اور دیگر شعبوں میں نہیں ہے۔ جس سے یہ عمومی تاثر ابھرتا ہے کہ آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہر معاملے میں من مرضی کرتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر دستور کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر فیڈریشن میں توازن لانے کے لئے نئے صوبوں کے قیام کے لئے قرارداد پیش کی جاتی۔ مقررین نے خوبصورت تقاریر کیں لیکن وہ ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور اس کے پس منظر کے علاوہ غربت، بیروزگاری اور عدم مساوات جیسے اہم معاملات کو نظرانداز کرگئے جبکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ دستور کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر نصف صدی کے معاملات کاتنقیدی جائزہ لینے کے ساتھ حکمران طقبات کی غلطیوں پر بھی کھلی گفتگو ہوتی۔ یہ درست ہے کہ 1973 کا دستور جن حالات میں بنا ان حالات میں اس سے بہتر دستور نہیں بن سکتا تھا اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ عصری شعور کے ساتھ اس میں ایسی ترامیم لانے کی ضرورت تھی جو ایک حقیقی فلاحی جمہوری ریاست اور معاشرے کی تشکیل میں معاون ہوتیں۔ یقینا دستور سے انحراف، ماورائے آئین اقدامات، مارشل لائوں کا نفاذ اور ان کے ادوار میں جنم لینے والے بگاڑ سے پیدا ہوئے مسائل چیلنج ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اصلاح احوال بارے غوروفکر کے بغیر کوئی تبدیلی ممکن ہے؟ اندریں حالات یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ دستور کی ان ترامیم کا ازسرنو جائزہ لیا جائے جن کی بدولت فوجی اقتدار کے خاتمے پر ان قوانین کو دستوری تحفظ مل گیا جو مارشل لا کے دور میں شخصی حکمرانی کے دوام کے لئے بنے اور ان میں سے اکثر قوانین دستور کی بنیادی روح سے متصادم ہیں۔ بلاشبہ 1973 کا دستور پاکستانی فیڈریشن کی وحدت اوربقا کی ضمانت ہے البتہ نصف صدی بعد ہمارے قانون سازوں کو کامل آزادی کے ساتھ یہ سوچنا چاہیے کہ ہم ایک فلاحی جمہوری ریاست کی منزل سے ہر گزرنے والے دن کے ساتھ دور کیوں ہوتے جارہے ہیں؟ فیڈریشن کی اکائیوں کے شکوے شکایات ٹھنڈے دل سے سنے جانے چاہئیں۔ ہر قسم کی ناانصافی اور عدم مساوات کے خاتمے کے لئے جن اقدامات کی ضرورت ہے ان سے مزید صرف نظر نہیں ہونا چاہیے۔ ہماری دانست میں رائے عامہ کے ایک بڑے طبقے کی یہ رائے قابل غور ہے کہ دستور سے ماورا اقدامات میں طالع آزمائوں کا ساجھے دار بننے والوں پر پارلیمان کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کردیئے جانے چاہئیں۔ یہاں ہم اس امر کی جانب توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ دستور کے منتخب حصوں کونصاب تعلیم میں شامل کیا جانا چاہیے۔ مناسب ہوگا اس کا آغاز ثانوی تعلیم کی کلاسوں سے کیا جائے۔ اسی طرح یہ تجویز بھی قابل غور ہے کہ پارلیمان تاریخ کے گھٹالوں سے نجات دلانے کے لئے ہسٹری کمیشن کی منظوری دے اور کم سے کم وقت میں ہماری اگلی نسلوں کے لئے اپنی حقیقی تاریخ کا نصاب تیار کیا جانا چاہیے جو مقامیت سے عبارت ہو۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ قومی اسمبلی نے ملک میں ہر سال 10اپریل کو یوم دستور منانے کی قرارداد منظور کی ہے۔ بہتر ہوگا کہ ہر سال 10اپریل کو یوم احتساب کے طور پر پر منایا جائے تاکہ عوام یہ جان سکیں کہ پچھلے ایک سال میں حکومت نے دستور کے مطابق عوام کے لئے کیا کیا اور کتنا انحراف کیا۔

مزید پڑھیں:  وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں